شہزادہ محمد بن سلمان۔۔دور اندیش سعودی قیادت
پاک سعودی بڑھتے روابط کے اثرات خوش آئند ہونگے،دورے کو معاشی اور سیکیورٹی تعلقات کے فروغ کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے
تنویر انجم
سعودی عرب اور پاکستان کے مابین تعلقات کو اس وقت تاریخ کی انتہا پر قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پاکستانی قوم اس دنیا میں کسی سرزمین کو اگر اپنے ملک سے بڑھ کر چاہتی ہے۔ ہردم کسی کی سلامتی و استحکام کی دعائیں بھی مانگتی ہے تو وہ سعودی عرب ہے۔ اس سرزمین سے پاکستانیوں کی محبت کی وجوہ ویسے تو بے شمار ہیں مگر ان میں سرفہرست حرمین شریفین کی وہاں موجودگی کے بعد اہم ترین، دونوں ممالک کی جانب سے مشکل وقت میں ایک دوسرے کا مثالی ساتھ دینا اور اس پر قائم رہنا ہے۔قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی سعودی عرب کی جانب سے تعاون اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا جا چکا تھا جو آج تک نسل در نسل جاری ہے۔ کوئی مشکل وقت ہو، قدرتی آفت ہو، عالمی یا سفارتی مسئلہ درپیش ہو یا معاشی ، سیکیورٹی معاملات، دونوں جانب سے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا نہ صرف عزم رہا بلکہ عملی طور پر ٹھوس اور بڑے فیصلے دنیا پر ثابت کرتے رہے کہ یہ تعلق نہ صرف کسی بھی قسم کے شبہ سے پاک ہے بلکہ اغیار کی کوئی سازش بھی اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سعودی عرب کا غیر عرب مسلمان اتحادیوں میں قریب ترین اتحادی ہے۔
سعودی عرب نے موجودہ فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے دور میں ایک نئے سفر کا ایسا آغاز کیا ہے کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس حوالے سے اس کا سہرا اُن کے صاحبزادے اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سر ہے، جن کی دور اندیشی اور دانش مندانہ فیصلوں کی بدولت اس وقت سعودی عرب کسی بھی قسم کے نہ صرف خطرات سے محفوظ ہے بلکہ معاشی لحاظ سے ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔ وژن 2030ء سعودی ولی عہد کے منصوبوں کی بہترین مثال ہے، جس کے نتیجے میں مملکت نے تیل پر انحصار کرنے کے بجائے دیگر معاشی ذرائع اور وسائل استعمال کرنے کی جانب سفر شروع کیااور اقتصادی طور پر کامیابیاں سمیٹنا شروع کردی ہیں۔ سرمایہ کاری میں اضافہ اور کئی شعبوں میں سعودی شہریوں کو کام کرنے کی جانب راغب کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کے منصوبے یقینا مملکت کے استحکام میں معاون ثابت ہوں گے۔زیر نظر سطور کی تحریر تک سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے تاریخی دورے پر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچ چکے ہیں، جہاں وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وفاقی کابینہ کے ارکان اور دیگر حکام نے ان کا فقید المثال استقبال کیا جس کے بعد ولی عہد وزیر اعظم ہاؤس روانہ ہوگئے۔ان کی گاڑی بھی وزیراعظم عمران خان نے خود ڈرائیو کی۔ اس حوالے سے معزز مہمان کی آمد سے کئی روز قبل ہی اہم دورے کی کئی تفصیلات ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں۔ مختصر دیکھا جائے تو سعودی ولی عہد کے طیارے کو پاک فضائیہ کے ایف 16 اور جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے ملکی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ پاکستان میں شہزادہ محمد بن سلمان کو 3 لیئرز باکس سیکورٹی فراہم کی گئی ہے جبکہ راولپنڈی نور خان ایربیس سے وزیراعظم ہاؤس تک باکس سیکیورٹی کی ذمہ داری مشترکہ طور پر کمانڈ پاک فوج اور شاہی گارڈز کے سپرد ہے۔ فضائی نگرانی کے ساتھ بلند عمارتوں پر اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ سعودی ولی عہد کی آمد کے موقع پر شاہی مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کیلئے جڑواں شہروں میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ جگہ جگہ تہنیتی بل بورڈز آویزاں کرنے کے ساتھ وی وی آئی پی روٹ پر پاکستانی اور سعودی پرچموں کی بہار ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت پر شہزادہ محمد بن سلمان کا بڑا پورٹریٹ نصب کیا گیا ہے ۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے سے قبل ہی اقتصادی ماہرین اور حکومت کی جانب سے دیے گئے بیانات کے مطابق اس تاریخی موقع پر ملکی تاریخ کی ایک بڑی سرمایہ کاری ہوگی، جس کے تحت مختلف شعبوں میں کئی ارب ڈالر کے معاہدے کیے جائیں گے۔ دورے کو خصوصاً معاشی اور سیکیورٹی تعلقات کے فروغ کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، اس حوالے سے غور کیا جائے تو پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور معاشی استحکام بہت قریب دکھائی دیتا ہے۔ دونوں جانب سے خوش خبریاں پہلے ہی سنائی جا چکی ہیں، جن میں آئل ریفائنری کیلئے خصوصی فنڈ کا قیام، بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے معاونت سمیت کئی دیگر بڑے مشترکہ منصوبے شامل ہیں۔بتایا گیا ہے کہ برادر ملک کی جانب سے دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے 37 کروڑ 50 لاکھ سعودی ریال فراہم کیے جائیں گے، جبکہ مہمند ڈیم کیلئے 30 کروڑ ریال دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین بجلی سے متعلق بڑے منصوبوں کیلئے بھی ایک ارب 20 کروڑ 75 لاکھ ریال کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے جائیں گے۔ دیگر معاہدوں کے ساتھ گوادر میں بڑی آئل ریفائنری کے قیام کا منصوبہ دونوں ممالک کے بہترین تعلقات کا عکاس ہے۔
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب تک جوہری طاقت کی حامل دنیا کی واحد اسلامی ریاست پاکستان معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوتی، اس وقت تک جنوبی اور مرکزی ایشیا سمیت مشرق وسطیٰ کا امن اور استحکام بھی ایک خواب کے مانند ہے۔ ایسے ہی معاملات کے پیش نظر دونوں ممالک کے مابین بڑی سرمایہ کاری کے نئے عزم ظاہر ہو چکے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ایک دوسرے کو ہرممکن لحاظ سے مضبوط بنا کر نہ صرف خود کو کسی بھی قسم کے معاشی یا سلامتی خطرات سے محفوظ کیا جا سکتا ہے بلکہ عالمی امن کو یقینی بنانے میں بھی یہ منصوبے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان آمد سے قبل ہی سعودی حکام کی جانب سے ویزا فیسوں میں نمایاں کمی کے فیصلے نے عوام کے دلوں میں محبت اور سعودی عرب کیلئے موجود جذبے کو مزید توانا بنا دیا ہے۔ معیشت اور سیکیورٹی کے شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے روابط اور رشتوں کے اثرات دونوں ملکوں اور خطوں کیلئے نہ صرف خوش آئند ثابت ہوں گے بلکہ اس کے مثبت نتائج بہت جلد ہی سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد کے حوالے سے ماہرین کاکہنا ہے کہ جس طرح سے شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے ملک میں معاشی انقلاب کیلئے بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور ایک نئی راہ متعین کی ہے، ویسے ہی ان کے توسط سے ہونے والے معاہدوں سے پاکستان میں بھی معاشی انقلاب آئے گا۔ جادوئی شخصیت کے مالک شہزادے نے جس طرح سے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کو منوا کر منفرد عروج حاصل کیا، اس کی سعودی شاہی خاندان میں کوئی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ دنیا حیران ہے کہ بنیادی طور پر قانون پڑھنے والی شخصیت اسلامی دنیا کے طاقتور ترین ملک کی طاقتور ترین شخصیت کیسے بن گئی، تاہم مبصرین کے مطابق سعودی ولی عہد غیر معمولی دور اندیشی اور بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں، ان کی مشاورتی ٹیم قابل، تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے، جس کی وجہ سے جدید دنیا کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے سعودی ولی عہد نہ صرف اپنے ملک میں وژن 2030ء کی شکل میں ایک انقلاب کا آغاز کر چکے ہیں بلکہ ان کی خواہش ہے کہ سعودی عرب کے ساتھی، برادر ممالک اور اتحادی بھی مملکت ہی کی طرح ترقی کے منازل طے کریں۔