عمران خان بمقابلہ نریندر مودی !
جمعرات 28 فروری 2019 3:00
سجاد وریاہ
پاکستان اور ہند کے درمیان تعلقات کی طویل تلخ تاریخ ہے،ان 2 ممالک کی اقوام اور رہنماوٗں نے خود کو ماضی سے نکال کر اپنے معاملات کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی ،اس سلسلے میں ہند کا کردار انتہائی منفی رہا ہے۔تقسیم ہندوستان کے موقعے پر ہند کی قیادت کے آسمان پر جواہرلال نہرو اورگاندھی جی جیسے ستارے جگمگا رہے تھے۔اُس وقت کی سیاسی قیادت میں انسانی احترام کے ساتھ اُصول پسندی اور شخصی وقار بھی پایا جاتا تھا۔تمام ترمذہبی،قومی،ثقافتی اورفکری اختلافات کے باوجود ان کے’ وچار ‘کسی حد تک ’جیو اور جینے دو‘ کے ابدی نعرے سے لگا کھاتے تھے ۔دونوں قیادتیں یہ سمجھ چکی تھیں کہ ہندوستان کی تقسیم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا لیکن پھر بھی باہمی تعاون،مذاکرات اور احترام کا سلسلہ برقرار رہا۔اسی طرح پاکستان میں بھی بابائے قوم محمد علی جناح اور نواب لیاقت علی خان جیسے عظیم المرتبت ،وژنری اور اعلیٰ انسانی روایات کے پابند روشن ستارے چمک رہے تھے لیکن کیا ہوا کہ آزادی کے بعد تمام معاملات غیرتعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ قوموں کے ہاتھ آ گئے۔پاکستان کی بد قسمتی کہ قائد اعظم جلد ہی وفات پا گئے جبکہ لیاقت علی خان بھی شہید کر دیئے گئے۔اس کے بعد ملکی معاملات میں بوجوہ سیاسی قیادت پروان نہ چڑھ سکی،اس دور کے 2 بڑے لیڈر ذوالفقار علی بُھٹو جنرل ایوب کی پیداوار تھے ان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے اور نوازشریف ،جنرل ضیاء الحق کی پیداوار ہیں ان کو روحانی باپ سمجھتے تھے لیکن المیہ یہ ہوا کہ دونوں نے فوج سے نفرت کی بنا پر خود کو بڑا جمہوری رہنما بنانے کی کوشش کی لیکن ان کا انجام قابل ستائش نہ ہوا۔
ہند کی سیاسی تاریخ میں بھی بڑے سیاسی رہنماوئں کے ساتھ المناک سلوک ہوا اور وہاں ہِندو بنیاد پرستوں نے سیاسی معاملات پر کنٹرول حاصل کر لیا ،اس طرح دونوں ممالک ایک طرح کی معمول کی سیاسی جدوجہد سے دور ہٹ گئے ،اور سیاسی افق پر بونے سیاستدان مصنوعی سہاروں کے ذریعے خود کو قد آور رہنما ثابت کرنے کیلئے غیر فطر ی اور منفی ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے رہے۔اس میں مذہبی منافرت،کرپشن ،انسانی جانوں کا ضیاع ،غرض جو بھی اقدام سیاسی کامیابی دلوا سکتا تھا وہ اُٹھایا گیا بے شک اس سے انسانی جانیں اور اخلاقی اقدار بھی قربان ہو جائیں۔
اس تاریخی تناظر میں اگر حالیہ سیاسی قیادت کا موازنہ کرنے کی کوشش کی جائے تو پاکستان کی سیاسی قیادت،سیاسی پارٹیاں ہند کی سیاسی قیادت اور پارٹیوں کی نسبت بہت بالغ نظر معلوم ہو تی ہیں۔اس کے 2 اسباب واضح دکھائی دیتے ہیں۔ایک تو یہ ہے پاکستان کا سیاسی ماحول انتہائی آزادانہ ،جمہوری اور آزادی اظہار کیلئے موزوں ہے۔یہاں جبر و خوف کی گُھٹن دکھائی نہیں دیتی بلکہ بے لگام آزادی کے سبب اختلافات کی شدت دکھائی ضرور دیتی ہے۔دوسرا محرک ہمارے ملک میں غیر ملکی مداخلت کے منفی اثرات نے قوم کو بیدار کر دیا ہے اور نسبتاََ بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔جبکہ ہند میں سیاسی جہالت عروج پر ہے، فکری بونوں کی کثیر تعداد ٹی و ی چینلز پر اپنی منفی اپروچ کا پرچار کر رہے ہوتے ہیں۔پاک ہند کشیدگی کا عروج ہے ،مجال ہے کہ ہندوستانی میڈیا میں بیٹھے اینکرز چیخنے کے علاوہ کوئی ڈھنگ کی بات کر رہے ہوں۔گیدڑ بھبھکیاں ،ہا ہا ،ہو ہو کا سماں باندھے ہوئے ایسے چیخ رہے ہوتے ہیں جیسے ہندوستانی فوج ان کے اشارے پر ہی حملہ کرے گی۔مجھے تو سمجھ نہیں آتی یہ جعلی بڑھکیں مارنے والوں کو شرم بھی نہیں آتی ،جبکہ ان کو پتہ ہے کہ ہند میں جرأت نہیں کہ وہ پاکستان پر حملہ کر سکے۔
ہندوستانی وزیراعظم مودی نے نفرت انگیز بیانیہ منظم انداز میں ترتیب دیا ہے ،پلوامہ واقعے کو بہانہ بنا کر پاکستان پر حملہ کر دیا جس کے جواب میں پاکستان میں بھی فضا خراب ہو گئی۔آج پاکستان نے ہندوستانی فضائیہ کے 2 طیارے مار گرائے اور پائلٹس پکڑ لیے جس سے حالات مزید خراب ہونگے۔ عمران خان نے ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے لیکن ہندوستانی وزیر اعظم کے سر پر الیکشن کا بھوت سوار ہے۔ پاکستانی قیادت کے سامنے،مودی کا سیاسی کیرئیر تو صرف اور صرف دہشتگردی اور مسلمانوں کے خون سے رنگا ہے۔پاکستان کا وزیر اعظم عمران خان اعلیٰ تعلیم یافتہ ،آکسفورڈ سمیت عالمی اداروں میں عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔کرکٹ کی دنیا کا ستارہ،عالمی سطح پر شہرت اور نیک نامی اسکا طُرہ امتیاز ہے۔اس کی کرکٹ کی دنیا میں نیوٹرل امپائر متعارف کرانے کی کوشش کو ہی دیکھ لیں تو اس کی نفسیات اور مزاج سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ وہ لڑنے کا عادی ہے ،لڑ کر جیتنا چاہتا ہے۔سیاست کے میدان میں بھی اس نے مصنوعی سہاروں کی بجائے ایک طویل جدوجہد کی اور زبردست مقابلہ کیا۔ عوام کے بل بوتے پر مخالفین کو چت کیا ۔اسکی شخصیت،اس کا وژن،اسکی نیک نامی پاکستان کے لئے باعث فخر سامان رکھتی ہے۔ہند کی اندرونی سیاست اور معیشت بس گائے کے گوشت کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔مسلمان گائے کا گوشت کھائیں تو ہندوتوا جاگ جاتی ہے جبکہ ہندو کمپنیاں گائے کو کاٹ کر دنیا بھر میں بیف کا کاروبار کرتی ہیں،ان کی مذہبی منافقت کا اس بات سے ہی ہو جاتا ہے۔مودی کی حکومت کے وزیر ہی ’’گاوٗ ہتھیا ‘‘ کر کے گاوٗ ماتا کو دنیا بھر میں بیچ رہے ہیں۔ ریاستی منافقت کا اندازہ بھی اس بات سے ہو جاتا ہے کہ کشمیر میں دہشت گردی کرتا ہے،قرائن بتاتے ہیں کہ پلوامہ حملہ بھی ہندوستانی ایجنسیوں نے اسٹیج کیا تھا ۔ ہند کو شہزادہ محمد بن سلمان کے پاکستان کے دورے سے تکلیف تھی،جس کو سبوتاژ کرنے کیلئے پلوامہ کا ڈراما رچایا گیا۔