Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”مدائن صالح “سے پیغمبر صالح علیہ السلام

حلیمہ مظفر ۔ المدینہ
یہ مضمون بچپن سے ذہنوں میں پیوست ایک غلط فہمی کے ازالے کیلئے لکھ رہی ہوں ۔ ہمارے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے، چونکہ ”مدائن صالح“ کا تعلق قوم ثمود سے ہے۔ جسے ہیبتناک آواز کا عذاب دیکر ہلاک کیا گیا تھا لہذا اس کی سیر و سیاحت کیلئے جانا حرام ہے۔ دراصل اس غلط فہمی کا چرچا ”شتاءطنطورة“ پروگرام کے موقع پر ہوا۔ رائل کمیشن اس عنوان سے العلا میں پروگرام منعقد کرکے خوشیوں کے دیپ جلائے تھے۔ اس پروگرام نے ”پہاڑوں کی دلہن“ کو قابل فخر تمدن کا مرکز بنادیا۔ 2006ءمیں مدائن صالح جانا ہوا تھا۔وہاں میں نے پہاڑوں کو تراش کر بنائے گئے محل دیکھے تھے۔ میں انہیں دیکھ کر حیران اورششدر ہوگئی تھی۔ حیرانی کی وجہ صرف اتنی ہی نہ تھی کہ یہ محل بڑے خوبصورت تھے۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے 100 برس پہلے بنائے گئے تھے۔ یہاں نبطی اور ان سے پہلے لحیانی اور داوانی سکونت پذیر تھے۔ میری حیرانی کا باعث یہ بھی تھا کہ میں نے اپنی استانی ”خدیجہ“ سے جو سوال کیا تھا وہاں پہنچ کر مجھے اسکا جواب مل گیا تھا۔ مشاہدہ نے ثابت کیا تھا کہ پہاڑوں کو تراش کر بنائے گئے ”در“ رہائشی مکان نہ تھے بلکہ یہ تنگ کمرے تھے جو مُردوں کو دفنانے کیلئے تراشے گئے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے قوم ثمود کی سنگ تراشی کے حوالے سے جو بات کہی ہے وہ ”مدائن صالح“ نامی مقام پر پہاڑوں کو تراش کر بنائی گئی ہے،قبروں پر صادق نہیں آتی۔ قرآن میں تو یہ کہا گیا ہے کہ وہ پہاڑوں کو تراش کر زندہ انسانوں کے رہن سہن کیلئے پرشوکت گھر بنایا کرتھے۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ میں نے ”مدائن صالح“ میں جو کچھ دیکھا تھا اور سائنسی ٹیم کے ہمراہ جو کچھ ریکارڈ کیا تھا اسے پہلے سلسلہ وار ”الشرق الاوسط“ اور پھر ”الریاض“ ، ”الوطن“ میں شائع کیا تھا۔ اب المدینہ میں اسکا خلاصہ پیش کررہی ہوں۔ میں نے جو نکات اٹھائے تھے وہ بیشتر تاریخی مقالات سے اوجھل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن الانصاری نے تحقیقی تحریر میں ثابت کیا کہ مدائن صالح کے پہاڑ درحقیقت نبطیوں کے خاندانی پہاڑی قبرستان ہیں ۔ اس کا نمایاں ترین ثبوت یہ ہے کہ نبطیوں نے اپنی سنگ تراشی کی تاریخ نقوش کی صورت میں ریکارڈ کی ہے۔ انہوں نے مدائن صالح کی تراشیدہ قبروںکے نقوش میں تحریر کیا ہے کہ یہ انکے خاندانوں کی قبریں ہیں۔
اس حوالے سے قدیم ترین کتبہ سو برس ماقبل مسیح کا ہے جو وائلہ بنت حرام کمکم کی قبر پر لگا ہوا ہے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مدائن صالح میں” پہاڑی درہ “ ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد تراشے گئے ہیں اس سے قبل نہیں۔
قرآن کریم نے انبیائے کرام علیہم السلام کی جو ترتیب بیان کی ہے اس کے مطابق حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کیلئے مبعوث کیا گیا تھا۔ انکی بعث حضرت نوح اور حضرت ھود علیہم السلام کے بعد اور حضرت ابراہیم ، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام سے پہلے ہوئی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سیدنا لوط علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہمعصر تھے۔ علماءبتاتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے درمیان 1500برس سے زیادہ کا فرق ہے اور ہمارے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان 3500برس سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام (جو ابراہیم علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہوئے تھے) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کتنے سال کا فاصلہ ہے؟ ہزاروں برس کا ہے لہذا اگر موجودہ مدائن صالح کے محل نبی صالح علیہ السلام کی قوم کے مان لئے جائیں جیسا کہ عوام میں رائج ہے تو ان کی عمر تقریباً9ہزار برس ماننی ہوگیجبکہ انکی بابت کہا جارہا ہے کہ یہ صرف 2100برس پرانے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان آثار قدیمہ کا حضرت صالح علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں اور وہ حجر میں سکونت پذیر تھے تاہم موجودہ آثار کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: