ضلع بدین میں پانی کی طویل قلت کے باعث زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور کسان سراپا احتجاج ہیں۔ ٹویٹر پر بھی اس حوالے سے متعدد ٹویٹس کیے گئے۔
آزاد چانڈیو نے ٹویٹ کیا کہ ضلع بدین صوبے کے کچھ ایسے اضلاح میں شمار ہوتا ہے جو تیل گیس اور دوسرے معدنی وسائل سے مالا مال ہیں لیکن پ پ اور مرزا گروپ کے آپسی سیاسی اختلافات کی وجہ سے بڑے عرصے سے بدین کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
شمشاد بھٹو نے لکھاکہ صحافی بھائیوں سے اپیل کرتے ہیں بدین میں پانی کے مسئلے پر آواز اٹھائیں۔ بدین میں پانی کی اشد ضرورت ہے۔ پوری ساحلی پٹی سخت خشک سالی کی شکار ہے۔ علاقہ مکین نقل مکانی پر مجبور، مویشی بھوک پیاس سے مرنے لگے ہیں۔
نادر جونیجو کا کہنا ہے کہ بدین کے شہریوں کے ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آنے والی فہمیدہ مرزا بدین کے عام شہریوں کیلئے اسمبلی میں آواز بھی نہیں اٹھا پائی جبکہ سندھ اسمبلی میں بیٹھے وزیروں نے بھی بدین کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔لوگ پانی کی بوند بوند کے لیے ترس رہے ہیں۔
مسعود شاہ نے ٹویٹ کیا کہ ظلم کی انتہا بدین کے لوگ پانی سے محروم، بچے پانی کیلئے تڑپ رہے ہیں مگر حکومت نیند میں سو رہی ہے کیا کوئی بدین کی عوام کا یارو مددگار ہے۔
ناصر بلڑو کا کہنا ہے کہ شریعت نے بھی یہ حق دیا ہے دریا کو بہنے دیا جائے۔ اسی لئے سندھو دریا کا پانی بھی سندھ خاص طور پر بدین کے لوگوں کا حق ہے، ڈیم بنا کر وفاقی اور صوبائی حکومت دریا سندھ کا پانی چرا نہیں سکتے۔
خرم شہزاد نے ٹویٹ کیا کہ بدین میں لاکھوں لوگوں کاذریعہ معاش زراعت ہے.پچھلے کافی عرصے سے بدین کی نہروں میں پانی نہیں ہے۔ جس وجہ سے لاکھوں لوگ متاثرہیں.بدین میں خشک سالی کی ذمہ دارسندھ حکومت ہے۔سندھ میں پانی کی تقسیم منصفانہ طریقے سے نہ ہونے کی وجہ سے کئی تحصیل ڈسٹرکٹ میں پانی کی کمی کی شکایات ہیں۔