کیا پاکستان اور چین کے تعلقات میں سرد مہری آ رہی ہے؟
وسیم عباسی
پاکستان اور ہندکے درمیان پلوامہ حملے کے بعد فضائی اور زمینی جھڑپوں پر چین کے محتاط ردعمل سے کچھ حلقوں میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ شاید چین نے اس بار اس شدت سے پاکستان کی حمایت نہیں کی جو دونوں ممالک کے تعلقات کا ہمیشہ خاصہ رہی ہے۔
منگل کو چین کی حکومت کی ترجمانی کرنے والے سرکاری اخبار کے اداریے میں کہا گیا ہے کہ چین پاک - ہند تنازع میں کسی کی طرف داری نہیں کرے گا کیونکہ بیجنگ کا مقصد غربت اور پسماندگی کے شکار کشمیر میں ترقی لانا ہے۔ اداریے کے مطابق پاکستان اورہندوستان کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لئے چین ثالثی کرانے کو تیار ہے۔
اس سے قبل جب ہندکے جنگی طیاروں نے پاکستانی سرحد کی خلاف وزری کرتے ہوئے بالاکوٹ میں پے لوڈ گرایا تب بھی چین نے ماضی کے برعکس ہندکی کھل کر مذمت کرنے کے بجائے دونوں ممالک کو برداشت اور بات چیت سے مسائل حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
اپنی لڑائی خود ہی لڑنی ہوتی ہے:۔
اس حوالے سے جب پاکستانی وزارت خارجہ کے اعلی عہدیدار سے پوچھا گیا تو ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ ایک تاثر تو ہے مگر چین اور پاکستان کے درمیان سب کچھ نارمل ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ چین، ہندسے کشیدگی نہیں چاہتا جو کہ پاکستان کی بھی خواہش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ کی صورت میں بہرحال کسی بھی ملک کو اپنی لڑائی خود ہی لڑنا ہوتی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کے حوالے سے سے چین نے اقوام متحدہ میں کئی بار قرارداد کو روکا ہے۔
اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت:۔
پاکستانی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کے مطابق پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا گھر ٹھیک کرے اور چین جیسے دوست کو آزمائش میں نہ ڈالے ۔’صاف ظاہر ہے کہ چین کےلئے یہ بات سبکی کا باعث ہے کہ جس تنظیم کا اس نے اقوام متحدہ میں3 بار پاکستان کے کہنے پر دفاع کیا ہو، وہ پلوامہ واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لے۔ ایسی ندامت والی صورتحال سے گریز کرنا چاہیے اور ہمیں اپنے قریبی دوست کو اس طرح کی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنا گھر ٹھیک کریں۔‘
تاہم مشاہد حسین کے مطابق چین کی پاکستان کے متعلق پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی اور ”آئرن برادرز“کے طور پر پاکستان کی چین کے ساتھ خصوصی تزویراتی شراکت داری قائم ہے۔ اس شراکت داری کو ”بیلٹ اینڈ روڈ“کے مرکزی حصے یعنی سی پیک منصوبے سے مزید تقویت ملی ہے جس کی ہنداور امریکہ سخت مخالفت کر رہے ہیں۔
چین کے ساتھ مشترکہ مفاد:۔
مشاہد حسین کے مطابق پاکستان اور چین کا مفاد مشترک ہے اور دوسری طرف ہندجس کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے خود کو چین کا حریف سمجھتا ہے اس لئے چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ہندکے ساتھ بیجنگ کے تعلقات سے خاصی مختلف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کے سرکاری اخبار کے بیان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چین واضح کرنا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان اور ہند کے ساتھ آزادانہ ثالثی کی پوزیشن میں ہے۔
چین-ہند تجارت کا کردار:۔
امریکی تھنک ٹینک وڈرو ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کے مطابق چین عملی طور پر پاکستان- ہندتنازعات میں کھل کر کسی فریق کی طرف داری کرنے کے حوالے سے محتاط رہتا ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ بھی ہے کہ چین کے ہندوستان کے ساتھ قابل عمل تعلقات ہیں اور دونوں ممالک دنیا میں سب سے بڑے باہمی تجارتی تعلق میں بندھے ہوئے ہیں اور ایسے میں بیجنگ نہیں چاہتا کہ وہ ہندوستان کو ناراض کرے ۔اس کے باوجود کوگلمین کے مطابق چین کسی نہ کسی طرح پاکستان کی غیر محسوس حمایت کر دیتا ہے جس کی مثال اقوام متحدہ میں مسعود اظہر کے خلاف قرارداد رکوانا بھی ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ کےلئے علاقائی استحکام:۔
امریکی ماہر کے مطابق گو کہ انہوں نے چین کی پالیسی میں کوئی قابل ذکر تبدیلی تو محسوس نہیں کی مگر یہ ضرور ہے کہ اب چین ماضی کے مقابلے میں دہشت گردی کے حوالے سے ہندوستان کے موقف کو زیادہ سمجھنا شروع ہو گیا ہے کیوں کہ وہ جان گیا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کیلئے علاقائی استحکام انتہائی ضروری ہے۔