Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بقالوں کی سعودائزیشن سے پہلے ....۱

ڈاکٹر محمد آل سلطان ۔ عکاظ
اپنے قارئین سے یہ اعتراف کرنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ وزارت محنت و سماجی بہبود جب بھی سعودائزیشن کی کوئی اسکیم لاتی تھی تو میں اس کے لئے پرجوش ہوجاتا اس طرح کوئی بھی وزارت اس حوالے سے کوئی اقدام سعودی مارکیٹ میں کیا کرتی تو مجھے جی جان سے خوشی ہوتی۔ یہ خوشی فطری ہے ۔ دراصل مملکت میں روزگار کا پہلا حق یہاں پیدا ہونے والے سعودی کا ہے۔ اب میرا جوش ڈھیلا پڑ گیا ہے ۔ میرا ردعمل کافی متوازن ہوگیا ہے اس کا قصہ یہ ہے کہ میں نے وزارت محنت میں ”مشیر“ کے طور پر کچھ عرصے کام کیا تو عملی تجربے نے مجھے سعودائزیشن کے کسی بھی پروگرام کی بابت حقیقت پسند بنادیا۔ اب جب بھی سعودائزیشن کا کوئی پروگرام سامنے آتا ہے تو میں مختلف زاویوں سے دیکھتا اور پرکھتا ہوں۔ اب میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اس پروگرام سے سعودی شہری بحیثیت آجر، بحیثیت اجیر بحیثیت صارف اور خدمت کے طلب گار کی حیثیت سے کس حد تک او رکس کس شکل میں متاثر ہوگا۔
اب میرا ذہن یہ بن گیا ہے کہ تاجر بننے کا بہترین طریقہ کار کالجوں کے اساتذہ سے نہیں سیکھا جاسکتا۔ تاجر بننے کیلئے انسان کو تجارت کی دنیا میں گھسنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں بقالے اورکھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے مراکز انسان کو صحیح معنوں میں تاجر بناتے ہیں۔ مشاہدہ یہ ہے کہ جب بھی کسی شعبے کی جزوی یا مکمل سعودائزیشن کا فیصلہ ہوتا ہے تو کاروبار کی دنیا میں نام کمانے والے کامیاب نوجوانوں کے قصے کثیر تعداد میں سامنے لائے جاتے ہیں۔ حالانکہ میرے پاس اس حوالے سے ایسے افراد اور خاندانوں کے قصے بھی ان سے کم نہیں جو جزوی یا مکمل سعودائزیشن کے فیصلے کے باعث سڑک پر آگئے۔ انکی اقتصادی حالت برباد ہوگئی اور انکی مالی پوزیشن ابتر ہوگئی۔ 
پھر حل کیا ہے؟
سب سے پہلے تو ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ سعودی عرب میں بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ دوسری بات یہ ماننا ہوگی کہ ہمارے یہاں پائدار نوعیت کی ملازمتیں ناکافی ہیں لہذا سعودیوں کو ملازمتیں دلانا بے روزگاری کا عارضی حل ہے۔ چند برس بعد معاملہ زیرو پوائنٹ پر پہنچ جائیگا۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر سعودی وژن 2030نے رائج الوقت اقتصادی ماڈل کو تبدل کرکے نئے اقتصادی طور طریقے اپنانے کی راہ دکھائی ہے۔ ٹیکنالوجی، صنعت اور سیاحت کے شعبے سعودیو ں کیلئے کھولے جارہے ہیں۔ ان میں سے بعض کے خوشگوار نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔
وزارت محنت کو مارکیٹ کی شرح نمو پر اثر انداز ہوئے بغیر غیر ملکی کی جگہ سعودی کو ملازم رکھنے والا معاملہ ٹھوس بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ مکمل سعودائزیشن کا کوئی بھی پروگرام مثال کے طور پر بقالوں کی سعودائزیشن کا ہدف اس وقت تک پورا نہیں ہوگا تاوقتیکہ (بقالوں ) کے حوالے سے ماحول سعودیوں کے لئے ساز گار نہ ہو۔ بقالوں کی بابت عرض ہے کہ اوقات کار متعین ہوں ۔ اشیاءکی فراہمی کا مربوط نظام ہو۔ غیر ملکی بقالے پر 20گھنٹے کی یومیہ ڈیوٹی دیتا ہے۔ یہ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔ سعودی اپنے وطن میں ہے لہذا وہ طویل دورانیہ والی ڈیوٹی نہیں دے سکتا۔ اسے معمول کی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ غیر ملکی کا مسئلہ مختلف ہے جو یہاں صرف پیسے کمانے کیلئے آتا ہے لہذا اسے آرام کی اتنی فکر نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: