Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی تعلیمی اداروں میں تشدد اور قتل کے واقعات

احمد نور
 
پاکستان میں ماہرین کے مطابق تعلیمی اداروں میں قتل و غارت جیسے سنجیدہ مسائل کی وجہ نسلی ، مذہبی اور لسانی تعصب ہے۔ 
پاکستان میں بدھ کے روز ایک طالب علم نے مبینہ طور پر اپنے استاد کواس لیے قتل کر دیا کہ وہ ’مذہب مخالف خیالات‘ رکھتے تھے اور وہ کالج میں ایک الوادعی تقریب کا انعقاد کروا رہے تھے جس میں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے شامل ہو رہے تھے۔
صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج کے طالب علم خطیب حسین کو پروفیسر خالد حمید کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیاگیا ہے اورواقعے کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔
گذشتہ چند برسوں میں پاکستانی یونیورسٹیز اور کالجز میں ایسے ہی کیئی واقعات پیش آچکے ہیں جن میں طالب علموں یا اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 
09 مارچ 2019کو بنجاب یونیورسٹی لاہور کے  ایک نمبرہاسٹل میں 28 سالہ سہیل مردہ حالت میں پایا گیا ۔پولیس کے مطابق سہیل کو ایک تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا تھا۔ تاحال پولیس قاتل کو گرفتار نہیں کر پائی ہے۔
24 مارچ 2018 کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کی طالبہ  20 سالہ عابدہ کویونیورسٹی سے گھر جاتے ہوئے اغوا کیا گیا اور بعد میں بے دردی سے قتل کر دیا گیاتھا۔
23 جنوری 2018 کوصوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میںپولیس کے مطابق اسلامیہ پبلک کالج میں زیر تعلیم بارہویں جماعت کے طالب علم سید فہیم شاہ نے معمولی تلخ کلامی پر اپنے پرنسپل سریر خان کو پستول سے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔
18 اپریل2017 کو پنجاب یونیورسٹی لاہور کی ایک ریٹائرڈ پروفیسر طاہرہ کو قتل کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق پروفیسر کو پنجاب یو نیورسٹی ہاوسنگ سکیم میں واقع ان کے گھر میں داخل ہو کر چاقو کے وار کرکے قتل کیا گیا تھا۔
13 اپریل 2017 کوعبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں جرنلزم کے 23 سالہ طالب علم مشال خان کو مبینہ طور پر ’گستاخانہ مواد‘ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے الزام میں مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے قتل کردیا۔پشاور میں انسدادس دہشت گردی کی عدالت نے ان کے قتل میں ملوث دو افراد کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
29 اپریل 2015 کو کراچی یونیورسٹی کے 42 سالہ پروفیسر وحید الرحمن کو چار موٹر سائیکل سواروں نے گاڑی پر جاتے ہوئے گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
18 ستمبر2014 کو لبرل خیالات رکھنے والے کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد شکیل اوج کو گولیاں مار کرقتل کر دیا گیا، حکام کے مطابق اس قتل کی وجہ امریکہ میںمبینہ طور پر ایک ’گستاخانہ‘ تقریر تھی۔
اس سے ایک ہفتہ قبل کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک سٹڈیز کے ایک پروفیسر مولانا مسعود بیگ کوبھی نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیاگیا تھا۔
اردو نیوز نے سماجی امور کے ماہرپروفیسر پرویز ہود بھائی اور پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر حفیظ انعام سے گفتگو کر کے جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کیا محرکات ہیںاور اس کا حل کیا ہے؟
پرویز ہودببائی کا کہنا ہے مذہبی جنونیت نے پاکستانی معاشرے کو بری طرح سے جکڑا ہوا ہے اور خصوصاً ایسی چیزیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کو بھی مذہب کا رنگ دے کر فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدم برداشت اور انتہا پسندی کا نتیجہ یہ ہے کہ آزادی فکر کو دبایا جا رہا ہے اور مذہب کے ایسے پہلوؤںکو اجاگر کیا جا رہا ہے جس کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پروفیسر ہودبائی نے گذشتہ روز بہاولپور میں طالب علم کے ہاتھوں قتل ہونے والے پروفیسر خالد حمید کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ آزاد سوچ رکھتے تھے اور ایک استقبالیہ پارٹی منعقد کروانے کاکہہ رہے تھے جس میں لڑکوں اور لڑکیوں نے اکٹھے شامل ہونا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی متعصب سوچ کی بھرپور طاقت کے ساتھ مذمت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب اس سے پاکستان کے تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے ہیں ۔
پشاور یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر حفیظ انعام کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ معاشرتی رویوں میں بہتری لائی جائے، لیکن گزشتہ چند برسوں میں تواتر کے ساتھ ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ تعلیمی اداروں کے علاوہ معاشرے میں ہر سطح پر صبر اور برداشت میں کمی آ رہی ہے۔
پروفیسر حفیظ انعام کے مطابق اس کی ایک وجہ طلبہ یونین پر پابندی بھی ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ’ جنرل ضیاء الحق کے دور میںجو سب سے بڑا کارنامہ سرانجام دیا گیا وہ پاکستانی تعلیمی اداروں سے طلبہ یونینز کا خاتمہ تھا جس کی وجہ سے لسانی ، مذہبی اور علاقائی تنظیموں کو موقع ملا کہ وہ تعلیمی اداروں میں بد امنی پیدا کریں اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔‘
 
 

شیئر: