Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سونا ہی ذریعۂ معاش ہے‘،  گلگت بلتستان کے شہری زمین کے اندر چُھپا خزانہ کیسے نکال رہے ہیں؟

کاروباری شخصیت نعمان ولی کے مطابق ’سخت محنت کے بعد بھی کبھی سونے کی معمولی مقدار ہی ہاتھ آتی ہے‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
گلگت بلتستان کا قدرتی حسن ہی نہیں بلکہ اس خطے میں موجود زیرِزمین سونے کے ذخائر بھی مقامی افراد کے لیے روزگار کا ایک اہم ذریعہ بن رہے ہیں۔
ضلع ہنزہ کے گاؤں سوست سے تعلق رکھنے والے 30 سال کے فاخر علی (فرضی نام) کبھی سیاحوں کو مختلف مقامات پر لے جاتے ہوئے اُن کا سامان اُٹھا کر بمشکل اپنا گزر بسر ممکن بناتے تھے۔
پھر ایک دن انہوں نے مقامی افراد کے ساتھ مل کر دریائے گلگت اور نالہ اشکومن کے کنارے ریت چھان کر سونا نکالنے کا کام کرنا شروع کیا جو اُنہیں راس آگیا۔
فاخر علی اب اپنے خاندان کے کچھ دیگر افراد کے ساتھ مل کر پلیسر گولڈ نکالنے کا کام کرتے ہیں اور وہ ماہانہ کم از کم 3 سے 5 گرام سونا نکال لیتے ہیں جسے وہ مقامی سناروں کو فروخت کر کے مناسب قیمت وصول کر لیتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں فاخر علی کی طرح سونے وال قبیلے کے افراد روایتی طریقوں سے اور مختلف کمپنیاں مشینوں کی مدد سے سونا نکالنے کا کام کرتی ہیں جو اُن کی آمدن کا اہم ذریعہ ہے۔
’یہ کام جتنا پُرکشش دکھائی دیتا ہے، حقیقت میں اس قدر آسان نہیں‘
گلگت بلتستان کے بلندو بالا پہاڑوں اور بہتے دریاؤں کے نیچے چُھپی ہوئی دولت یعنی سونا اب کئی افراد کے لیے معاشی امید بن چکی ہے مگر اس امید کے پیچھے چھپی حقیقت اتنی سنہری نہیں جتنی بظاہر دکھائی دیتی ہے۔
نعمان ولی، گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی کاروباری شخص ہیں جو گذشتہ چند برسوں سے پلیسر گولڈ مائننگ سے وابستہ ہیں۔ 
وہ گلگت بلتستان کے ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے دریا کے کناروں سے سونا نکالنے کے لیے حکومت سے باقاعدہ لیز حاصل کی اور جدید مشینری کے ذریعے اس میدان میں قدم رکھا۔
’ہم روایتی انداز سے سونا نہیں نکالتے‘
نعمان ولی نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم انفرادی سطح پر یا ہاتھوں سے سونا تلاش نہیں کرتے بلکہ باقاعدہ مائننگ کمپنی کے ذریعے حکومت سے لیز لیتے ہیں۔‘
’ہم مشینوں کی مدد سے سونا نکالتے ہیں۔ لیکن یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ گلگت بلتستان میں سونے کا کاروبار فوری اور بھاری منافع دیتا ہے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’کوئی شخص اگر 10 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کرتا ہے تو عموماً اس کے ہاتھ 5 لاکھ روپے کا سونا آتا ہے یعنی باقی رقم لاگت اور نقصان میں چلی جاتی ہے۔‘

لوگ روزانہ پانچ سے چھ ہزار روپے کا سونا نکال کر اپنی ضروریات پوری کر لیتے ہیں (فائل فوٹو: نعمان ولی)

مائننگ کا عمل اور حکومتی نظام
نعمان کے مطابق سونا نکالنے کے لیے سب سے پہلے ایک رجسٹرڈ مائننگ کمپنی کا ہونا ضروری ہے۔ پھر گلگت بلتستان کے محکمۂ معدنیات میں لیز کے لیے درخواست دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آپ یہ عمل آن لائن بھی مکمل کر سکتے ہیں۔ محکمہ جانچ پڑتال کے بعد دو سے تین ماہ میں لیز جاری کر دیتا ہے جس کے بعد آپ باضابطہ مائننگ شروع کر سکتے ہیں۔‘
ان کی کمپنی اس وقت ضلع ہُنزہ کے ایک قصبے سوست کے قریب واقع نالے میں پلیسر گولڈ نکالنے پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اب تک 16 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں، مگر فی الحال ابتدائی اندازوں کے مطابق فائدہ نہیں ہوا۔‘
نعمان ولی نے بتایا کہ ’پلیسر گولڈ نکالنے کے لیے بعض اوقات 100 سے 400 فٹ تک زمین کھودنا پڑتی ہے۔ یہ ایک اندھا کھیل ہے جیسے کہ بعض اوقات زمین کے نیچے سے بڑی مقدار میں سونا نکل آتا ہے، اور بعض اوقات کئی دنوں کی محنت کے بعد بھی سونے کی صرف معمولی مقدار ہی ہاتھ آتی ہے۔‘
وہ ایک چینی کمپنی کو سونا برآمد کرتے ہیں جو یہ شرط عائد کرتی ہے کہ صرف وہی سونا خریدا جائے گا جو زمین کے اندر سے نکالا گیا ہو۔ اُن کے نزدیک زیرِ زمین سونا زیادہ خالص اور قیمتی ہوتا ہے۔

گلگت بلتستان میں ہنزہ، نگر، دیامر، چلاس اور دریائے سندھ کے اطراف سونے کے ذخائر موجود ہیں (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

نعمان ولی کا کہنا تھا کہ ’کمپنیوں کے برعکس گلگت بلتستان کے مقامی افراد روایتی انداز سے سونا نکالتے ہیں۔ یہ لوگ جنہیں عام زبان میں ’سونا وال‘ کہا جاتا ہے، اپنے خاندان کی مدد سے دریا کے کنارے ریت کو چھان کر سونا نکالتے ہیں۔ وہ کسی مشینری کے بغیر چھلنی اور تجربے کی بنا پر اپنا کام کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سونے کی مقدار کم ہوتی ہے، مگر ان افراد کے لیے یہی روزگار کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ایک دن میں پانچ سے چھ ہزار روپے کا سونا نکال کر وہ اپنی بنیادی ضروریات آسانی سے پوری کر لیتے ہیں۔‘
نعمان ولی نے مزید بتایا کہ ’گلگت بلتستان کے کئی علاقوں میں سونے کے ذخائر موجود ہیں جن میں ہنزہ، نگر، دریائے سندھ کے اطراف کے علاقے، دیامر، چلاس اور اس جیسے کئی دیگر علاقے شامل ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ ذخائر قدرت کا انمول تحفہ ہیں، لیکن ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے تحقیق، سرمایہ کاری اور حکومتی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔‘
سونا نکالنے کے حوالے سے صوبائی حکومت کی پالیسی کیا ہے؟
گلگت بلتستان کی حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے اس موضوع پر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’گلگت بلتستان قدرتی وسائل سے مالامال خطہ ہے اور یہاں پر بہنے والے دریاؤں اور مختلف پہاڑی علاقوں میں سونا پایا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’گلگت بلتستان کی مقامی آبادی کا ایک بڑا حصہ جنہیں ’سونے وال‘ کہا جاتا ہے، قدیم زمانے سے پلیسر گولڈ نکالنے کا کام کرتا آرہا ہے۔‘

’گلگت بلتستان میں علاقے کے قدرتی وسائل پر مقامی آبادی کا حق تسلیم کیا گیا ہے‘ (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

فیض اللہ فراق کے مطابق ماضی میں پلیسر گولڈ نکالنے سے متعلق قوانین اتنے سخت نہیں تھے، تاہم اب حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ خواہ سونا پہاڑوں سے نکالا جائے یا دریا کے کنارے سے، اس کے لیے باقاعدہ اجازت نامہ (پرمٹ یا لیز) لینا لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’لیز کے حصول کے لیے فیس بھی ادا کرنا پڑتی ہے اور سونے کے نکالے گئے ذخائر میں سے ایک حصہ مقامی آبادی کو جب کہ دوسرا حصہ صوبائی حکومت کو جاتا ہے۔‘
ترجمان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ’بعض اوقات شہری کسی مقام پر سونے کی موجودگی کا پتا لگاتے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت وہاں سے سونا نکال لیتے ہیں اور یہ عمل بعض اوقات حکومت یا انتظامیہ کو اطلاع دیے بغیر انجام دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’گلگت بلتستان حکومت کی پالیسی کے مطابق علاقے کے قدرتی وسائل پر وہاں کی مقامی آبادی کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔‘
’اسی لیے اگر کسی مخصوص مقام سے سونا نکالا جا رہا ہو تو ضروری ہے کہ متعلقہ کمپنی کا تعلق گلگت بلتستان سے ہو، یا اس میں کام کرنے والے افراد کا تعلق مقامی آبادی سے ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی رضامندی بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔‘
فیض اللہ فراق نے اپنی گفتگو کے اختتام پر بتایا کہ ’اس وقت پاکستان بھر میں معدنی وسائل کے حوالے سے ایک قومی سطح کی پالیسی موجود ہے جسے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) دیکھ رہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایس آئی ایف سی اب بین الاقوامی کمپنیوں کو پاکستان اور بالخصوص گلگت بلتستان میں معدنیات نکالنے کے لیے سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہی ہے۔‘
’تاہم ان غیر ملکی کمپنیوں کی آمد کی صورت میں بھی مقامی آبادی کو اُن کے حصے اور حکومت کو رائلٹی کی ادائیگی کی پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔‘

 

شیئر: