عورت کی کمائی اور مردانگی
وسعت اللہ خان
یہ سنتے سنتے کان پک چکے کہ عورتیں آبادی کا نصف ہیں مگر پاکستانی محنت کشوں اور کارکنوں میں ان کی تعداد23 سے28 فیصد تک ہے۔ گویا باقی 70 بہتر فیصد عورتیں گھروں میں بیٹھی محض روٹیاں توڑ رہی یا حکم چلا رہی ہیں اور معیشت کا پورا بوجھ مرد نے اٹھا رکھا ہے۔یہ رونا بھی مسلسل رویا جاتا ہے کہ جو عورتیں فیکٹریوں ، دفاتر یا اسکولوں میں ملازمت کرتی ہیں ان کی تنخواہ مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ بھلے کام کی مقدار اور اہلیت برابر ہی کیوں نہ ہو۔مجھے تو ان عورتوں کی قسمت پر بھی رشک آتا ہے جو فیکٹری ، دفتر یا اسکول میں 8 گھنٹے کام کرتی ہیں۔ تنخواہ بھلے مرد کارکن کے مقابلے میں آدھی پونی ہی سہی مگر ملتی تو ہے۔
اس تمہید کے بعد میں آپ کی ملاقات غلاموں سے کرواتا ہوں۔تاکہ آپ کو کچھ اندازہ ہو سکے کہ ملکی معیشت میں بلا تنخواہ غلام عورتوں کا کتنا کم یا زیادہ حصہ ہے۔اگر اسلامی تعلیمات سے رجوع کیا جائے تو فی زمانہ اسلامی نظریاتی کونسل سے لے کر محلے کی مسجد تک یہ تو سننے کو ملتا ہے کہ عورت کی حدود و قیود و فرائض کیا ہیں ۔پردے کے کیا احکامات ہیں۔شوہر کی اطاعت ، بچوں کی پرورش اور خاندان کی تربیت کے بارے میں کیا کیا ذمہ داریاں ہیں۔مگر آخری بار آپ نے کب کسی عالم سے برملا کسی سیاسی یا مذہبی جلسے یا نماز کے اجتماع میں یہ کہتے سنا ہو کہ عورت اپنی مرضی سے تو گھریلو کام کاج کر سکتی ہے مگر یہ اس کا فرض نہیں۔وہ شوہر سے ہرگھریلو کام کا معاوضہ طلب کر سکتی ہے حتی کہ بچے کو دودھ پلانے کا بھی۔یہ تو اس ممتا کی ماری اور خاندان سنوارنے اور جوڑے رکھنے کی ہر دم کوشش کرنے والی کی مہربانی ہے کہ وہ اپنے اس حق پر اصرار نہیں کرتی۔ورنہ تو معاوضے کی شکل میں اس کا حق شوہر کی پوری کمائی بھی پورا نہ کر پائے۔
یہ تو بتایا جاتا ہے کہ عورت کی پہلی ذمہ داری اس کا گھر ہے اور گھر کی زمہ داری ہی اتنی بڑی اور گنجلک ہے کہ کسی اضافی بیرونی کام کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہہ کے سامانِ تجارت سے لدے اونٹوں کے قافلے دمشق تک جاتے تھے اور وہ اپنے زمانے کے متمول مکی تاجروں میں شمار ہوتی تھیں۔( کسی زمانے میں یہ مثال تعلیمی نصاب کا حصہ تھی۔مگر یہ میری نسل تک کے نصاب کی بات ہے )۔
آئیے اب ذرا پاکستانی عورت کے معیشت میں حصے کی بات کر لیں۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کاغذ پر تو آپ کو 100 میں سے77 کارکن مرد دکھائی دیں گے مگر یہ اعداد و شمار ان شعبوں کے ہیں جنہیں معیشت کے باضابطہ شعبے کہا جاتا ہے۔ان کی آمدنی و خرچ کا ریکارڈ موجود ہے اور جو مروجہ لیبر قوانین یا کارپوریٹ ضوابط کے تابع اور ان پر عمل کے پابند ہیں اور جہاں کم ازکم تنخواہ کا قانون نافذ تصور کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے پاکستان کی کل قومی آمدنی میں سب سے بڑا حصہ زراعت سے آتا ہے یعنی 24 فیصد کے لگ بھگ۔ملک میں جتنے بھی مزدور یا کارکن ہیں ان میں سے 45 فیصد زرعی شعبے سے وابستہ ہیں۔زرعی شعبے میں صرف فصلیں ہی نہیں بلکہ مویشی بانی ، ماہی گیری اور زرعی مصنوعات سے متعلقہ صنعتیں ( ایگرو بیسڈ انڈسٹری ) بھی شمار ہوتی ہیں۔
اب آپ ایک کام کریں۔کراچی سے جہاں بھی جانا چاہیں وہاں کا ٹکٹ کٹوا کے بس میں بیٹھیں اور راستے میں بغور دیکھتے جائیں کہ ہو کیا رہا ہے۔آپ کا بیشتر سفر زرعی علاقے میں طے ہو گا۔آپ دیکھیں گے کہ عورتیں بوائی کر رہی ہیں یا فصل کاٹ رہی ہیں یا سر پے مٹکا رکھے آ رہی ہیں جا رہی ہیں۔بوائی کٹائی کے زمانے میں مرد کا کام کھیت میں عموماً صبح 4 بجے شروع ہوتا ہے اور9 بجے تک ختم ہو جاتا ہے۔یعنی 5 گھنٹے۔اس کے بعد مرد اپنی مرضی سے کوئی کام کر لے تو کرلے ورنہ اس کا بیشتر وقت غیر پیداواری مصروفیات یا میل ملاپ میں گذرتا ہے۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی گاو¿ں کا چائے خانہ دیکھ لیں۔ کھچا کھچ بھرا ہوگا۔
وجہ جاننا بہت مشکل نہیں۔وجہ عورت ہے۔جو صبح مرد کے ساتھ ہی چار پانچ بجے اٹھتی ہے ، ناشتہ ، کھانا ، برتن ، پانی کا سٹاک ، مویشیوں کو چارہ ڈالنا ، ددھ دوہنا ، فصل کی بوائی کٹائی ، چھان پھٹک میں حصہ لینا ، مسلسل اچھل پھاند کرتے بچوں پر چیخنا ، نہلانا ، دھلانا غرض جو بھی آپ سوچ سکیں۔اس میں صحت مند اور بیمار ، حاملہ اور غیر حاملہ کی کوئی قید نہیں۔کہیں رات دس گیارہ بجے اسے چارپائی یا دری میسر آتی ہے مگر وہاں بھی نیند میں کسی نہ کسی سبب خلل پڑنے کا پورا امکان رہتا ہے۔بچوں کی طرف سے بھی اور شوہر کی طرف سے بھی۔
کبھی تو عورت بھی تھک کے چور ہو جاتی ہوگی۔اس دن کیا آپ نے کسی گاو¿ں میں مرد کو پانی کا مٹکا سر پے لاتے لے جاتے دیکھا ؟ وہ مر جائے گا مگر یہ ذلیل کام کبھی نہیں کرے گا۔اور ہاں18 سے20 گھنٹے کے اس دن میں اس عورت کے مرد کو یہ شک بھی نہیں ہونا چاہئے کہ اس نے کسی کو بغور دیکھ لیا بھلے بے دھیانی میں ہی سہی۔تیسری چوتھی بار ایسا ہونے یا محض گمان پر کوئی بھی قیامت ٹوٹ سکتی ہے۔
اگر میں اس کتھا کو فیصد میں تبدیل کروں تو زرعی سماج کا 65 فیصد بوجھ عورت نے اٹھا رکھا ہے۔اگر اس محنت کو معاوضے میں بدلا جائے تو اس اعتبار سے عورت کا رانی اور مرد کا ہاری ہونا بنتا ہے۔
یوں گھریلو کارکن کا ادارہ وجود میں آتا ہے۔جہاں کوئی ضابطہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔حادثے اور تشدد کی صورت میں کوئی ازالہ نہیں۔اوقاتِ کار کی کوئی گنتی نہیں۔کئی کئی گھروں میں مجموعی طور پر 16 سے 18 گھنٹے کام کیا جائے تب کہیں جا کے6 سے10 ہزار روپے تک ہاتھ میں آتے ہیں۔اس میں پہلا حصہ مرد کے سگریٹ پانی اور خرچی کا ہوتا ہے۔باقی پیسوں سے چولہا جلتا ہے اور اکثر سارا پیسہ ہانڈی چولہے پر ہی خرچ ہو جاتا ہے۔کپڑے اترن کے اور دوا دارو کے نام پر اسپرین ، ڈسپرین چل میرے بھائی۔