امت مسلمہ کے مخلص علماء ،دانشوروں اور صاف گو حکام نے دینی غیرت و حمیت، اصلاح کے جذبے اور بدی کی مزاحمت کی نیت سے دہشتگردعناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا
ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان ۔ جدہ
- - - - - - - - -
دہشتگردی سے دنیا کے ہر علاقے اور ہر مذہب کے لوگ اپنی جان ، مال عزت اور آبرو کیلئے ہروقت خطرہ محسوس کرنے لگے ہیں۔دہشتگردی معاشرے کے امن و امان اور سکون و سلامتی کیلئے مہلک آفت بنی ہوئی ہے۔ایسے لوگ بھی دہشتگردی کی زد میں آرہے ہیں جو نہ کوئی سیاسی رجحان رکھتے ہیں ، نہ کسی تحریک سے وابستہ ہیں اور نہ ہی کسی کے معاملے میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ دہشتگردی کے واقعات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں ۔
دہشتگردوں کے حملے دنیا کے ہر علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ دہشتگردی کرنیوالوں اور دہشتگردی سے متاثر ہونیوالوں میں یہودی، عیسائی، مسلمان، ہندو، بدھ،لادین،عرب ، ایشیائی، افریقی، یورپی، امریکی ،آسٹریلوی ہر براعظم کے لوگ شامل نظر آرہے ہیں۔ 1400ھ مطابق 1979ء میں مختلف ممالک کا ایک مسلح گروہ خفیہ طور پر مسجد الحرام مکہ مکرمہ کے تہ خانوں میں گھس گیاتھا۔ اس نے یکم محرم 1400ھ مطابق 21اکتوبر 1979ء کو جہیمان بن سیف العتیبی کی زیر قیادت قیامت خیز وارادات کرکے حرم شریف کے تقدس کو پامال اورعمرہ کرنے والوں اور نمازیوں کو یرغمال بنالیاتھا۔ان لوگوں نے حرم شریف کے اندر بے قصور انسانوں کا خون بہایاجس سے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری مسلم دنیا ہل کر رہ گئی تھی۔ 1995ء میں جاپان میٹرو میں زہریلی گیس کا واقعہ ،11ستمبر 2001ء کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی امریکی عمارتوں پر طیارہ حملے، 11مارچ 2004ء کو اسپین میڈرڈ میں 2مسافرٹرینوں میں دھماکے کا واقعہ اور مصر میں مختلف اوقات میں دہشتگردی کے واقعات کا تانتا، پورے عالم کو لرزہ براندام کئے ہوئے ہے۔
دہشتگردی کے حملوں نے مقامی اور علاقائی دائرے سے نکل کر عالمی رنگ بھی اختیار کرلیا ہے۔ حملے کی منصوبہ بندی کسی ایک ملک ، بجٹ کی فراہمی ، کسی دوسرے ملک اور حملے کا شکار کسی اور ملک کو بنایاجارہا ہے۔ دہشتگردی،نیابتی جنگ کا وسیلہ بھی بنی ہوئی ہے۔ کئی کمزور ممالک طاقتور حریف ملکوں کے سبق سکھانے والے دنداں شکن عبرتناک جوابی حملے یا عالمی رائے عامہ کے ڈر سے باقاعدہ جنگ کے بجائے دہشتگردی کا سہارا لے رہے ہیں۔ دہشتگردوں کی فکری حکمت عملی بھی تبدیل ہورہی ہے۔ گزشتہ 2عشروں کے دوران دہشتگردوں کی سوچ تھی کہ چند مشہور شخصیتوں کو قتل کرکے لاکھوں لوگوں کو خوفزدہ کردیا جائے اور اس طرح اپنے مطلوبہ مطالبات پورے کرالئے جائیں لیکن آج کل دہشتگردوں نے مختلف قسم کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ یہ لوگ حملے کرکے بھاری جانی و مالی نقصان پہنچانے کا طریقہ اختیار کرنے لگے ہیں۔یہ لوگ زیادہ سے زیادہ افراد کو وحشیانہ انداز میں قتل کرکے بھاری جانی و مالی نقصان کو اپنے ہدف کے حصول میں زیادہ موثر ماننے لگے ہیں۔
11ستمبر کو نیویار ک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتوں پر اغوا شدہ طیاروں کے حملوں سے دہشتگردی کے بحران کا آتش فشاں پھٹا تھا۔دراصل طیارہ حملے دنیا کی واحد بڑی طاقت امریکہ پر کئے گئے تھے ۔ دہشتگردی کے بحران نے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی بہ نسبت مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ تشدد اور دہشتگردی کا الزام نہایت عیاری و مکاری سے دین اسلام کے سر مڑھ دیا گیاحالانکہ اسلام کا دامن اس سے پوری طرح پاک ہے۔ اس بات میں ادنیٰ سا بھی مبالغہ نہیں کہ دہشتگردی کا جرم بنی نوع انساںکی سلامتی کے سراسر خلاف ہے۔ یہ خطرناک ترین اور گھناؤنا ترین جرم ہے۔ یہ اجتماعی جرم ہے ، اس سے کسی ایک فرد کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس سے متاثر ہونیوالوں میں قصور واراور بے قصور دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ماضی قریب تک دہشتگرد،روایتی وسائل پر انحصار کررہے تھے لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ دہشتگردی میں استعمال ہونیوالے وسائل ناگہانی طور پر بہت زیادہ اعلیٰ درجے کے ہوگئے ہیں۔
دہشتگردکیمیائی اسلحہ ہویا جراثیمی ہتھیار ہوں یا انفارمیشن ٹیکنالوجی ہو، ہر ایک سے پوری طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں۔جدید ترین وسائل کے استعمال کی وجہ سے دہشتگردی کے خطرات عالمی امن و استحکام کیلئے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ اسلام کیخلاف دہشتگردی کے عنوان سے جنگ سراسر ظالمانہ ہے ۔اسلام پردہشتگردی ایجاد کرنے ،اس کی سرپرستی اور آبیاری کرنے کا الزام بے بنیاد ہے۔ اسلام کی تاریخ میں نہ کوئی پہلی عالمی جنگ ملتی ہے اور نہ دوسری عالمی جنگ سے اسلام کا کوئی رشتہ ناتا نظر آتا ہے۔ اسی طرح اندلس میں قائم ہونیوالی تفتیشی عدالتوں کا بھی اسلام سے کوئی ذمہ دار نہیں۔ یہ جنگیں اور یہ عدالتیں مغربی ممالک کی ایجاد اور انہی کی اختراع ہیں ۔ اسلام سے ان کا کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ مغربی ممالک برسہا برس سے مسلمانوں کیخلاف ہر طرح کی دہشتگردی کررہے ہیں۔ تاریخی حقائق اس کا بہترین ثبوت ہیں۔زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ مغربی ممالک ہی دہشتگردی کا سرچشمہ اوراسے نقطہ عروج تک پہنچانے کا اعزاز اپنے سروں پر سجائے ہوئے ہیں۔
بلقان میں گزشتہ برسوں کے دوران جو کچھ ہوا وہ ماضی بعید نہیں بلکہ ماضی قریب کی باتیں ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اسلام کو ملزم بناکر دفاعی لائن اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے جبکہ تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ مسلمان دنیا میں فساد برپا کرنے کیلئے نہیں بلکہ تہذیب و تمدن اور علوم و معارف سے دنیا کو آباد کرنیوالی امت ہیں۔ایسے عالم میں مسلمانوں پر دہشتگردی کا الزام کیوں کر لگایا جاسکتا ہے؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رحمدلی اور انسانیت نوازی دین اسلام کا جوہر ہیں۔قرآن کریم کی آیتیں اور پیغمبر اسلام محمد مصطفی سے مروی حدیثیں اس کا روشن ثبوت ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 208 میں حکم دیتا ہے: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر مت چلو وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اہل اسلام پر یہ پابندی عائد کی ہے کہ اگر غیر مسلم ان سے پناہ طلب کریں تو انہیں نہ صرف یہ کہ پناہ دیں بلکہ آمد کا مقصد پورا ہونے پر انہیں محفوظ مقام تک پہنچانے کا بھی اہتمام کریں۔سورہ التوبہ کی آیت 6میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ حکم دیا ہے: وان احدمن المشرکین استجارک فأجرہ حتیٰ یسمع کلام اللہ ثم ابلغہ مأ منہ ذٰلک بأنھم قوم لایعلمون ’’اوراگر مشرکین میں سے کوئی شخص تم سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دیدو تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اس کو اس کے محفوظ ٹھکانے پر پہنچادو یہ اسلئےکہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام محمد کو رحمۃ للعالمین بناکر تمام بنی نوع انساں کیلئے مبعوث کیا تھا۔ آپ تشدد اور دہشتگردی سے منع کرتے اور رحمدلی نیز نرمی و شائستگی سے اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے۔آپ اپنے پیروکار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی یہی طریقہ کار اپنانے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ ارشاد رسالت ہے کہ :
’’یقیناً اللہ بزرگ و برتر کو نرمی پسند ہے اور وہ نرمی سے راضی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نرمی سے ایسی مدد کرتا ہے جو تشدد کے بل پر نہیں کرتا‘‘۔ اسلام سمیت تمام مذاہب دہشتگردی کے مخالف ہیں ۔دہشتگردی کی طرف لے جانیوالی انتہا پسندی کو بھی تمام مذاہب ناپسند کرتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ تمام مذاہب کے پیغام کا جوہر امن و سلامتی اور محبت و مودت میں مضمر ہے۔ تمام مذاہب حق کے ستون قائم کرنے اور دنیا بھر کے انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا بول بالا کرنے کیلئے بھیجے گئے۔ اس سچائی کے روز روشن کی طرح عیاں ہونے کے باوجود صرف اسلام ایسا مذہب ہے جس کے خلاف افتراپردازیوں کا طوفان برپا کیا جارہا ہے۔جسے تشدد، دہشتگردی اور جارحیت کا علمبردار مذہب گردانا جارہا ہے۔
ایسا کرنیوالے خفیہ ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ اسلام کیخلاف افواہوں کا بازار گرم کرکے مخصوص اہداف حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ 11ستمبر کے طیارہ حملوں کے بعد اسلام اور اس کے پیروکاروں کیخلاف من گھڑت الزامات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ الزامات کا طوفان دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی برادری اچانک جاگی ہے اور اسے جاگتے ہی ناگہانی طور پر اپنے سامنے کھڑا ہوا ایسا مذہب نظر آگیا جو تہذیب و تمدن کے تانے بانے بکھیرنے اور پوری دنیا کو دہشت زدہ کرنے کے درپے ہے۔ سچ یہ ہے کہ اسلام کیخلاف دروغ بیانی اور افترا پردازی کرنیوالے اسلام سے واقف نہیں۔ یہ لوگ اسلام کی روح کو سمجھنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ ان کے اپنے اہداف ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ مٹھی بھر مسلمان ایسے بھی ہیں جو تعصب کی عینک لگائے ہوئے ہیں جو انتہا پسندی کو اپنا اوڑھا بچھونا بنا چکے ہیں یا دہشتگردی کو اپنے افکار کی ترویج و اشاعت کیلئے ناگزیر سمجھتے ہیں تو یہ بات بھی اتنی ہی حق اور سچ ہے کہ اس قسم کے عناصر کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ۔ جو لوگ اسلام کو بنیاد بناکر دہشتگردی کررہے ہیں وہ قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی غلط تشریحات کئے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے وہ من مانی کررہے ہیں۔ اسلام ان کی سوچ اور ان کے کسی بھی کام کیلئے ذمہ دار نہیں ہے۔ حرمین شریفین کی سرزمین میں خونریز حملوں، نجی و سرکاری املاک کو تباہ و برباد کرنیوالی حرکتوں کو دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمان نہ صرف اچنبھے میں پڑے بلکہ مسلمانوں کے حلقے اس حوالے سے وحشت اور گھبراہٹ میں مبتلا ہوئے۔دہشتگردوں کی بھیانک سرگرمیوں سے کہیں زیادہ اہل اسلام ان کے ان من گھڑت دعوؤں سے پریشان ہوئے جو دہشتگردوں نے اپنے حملوں کو جائز اور درست ثابت کرنے کیلئے کئے۔ان لوگوں نے اپنی گھناؤنی حرکتوں کو جائز ٹھہرانے کیلئے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی من مانی تشریحات کا جال پھیلایا جبکہ دین اسلام ان کی گھناؤنی حرکتوں سے بری الذمہ ہے۔ امت مسلمہ کے مخلص علماء ،دانشوروں اور صاف گو حکام نے دینی غیرت و حمیت، اصلاح کے جذبے اور بدی کی مزاحمت کی نیت سے دہشتگردعناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔مسلم ممالک میں امن کے محافظ اداروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشتگردوں کو قابو کیا۔مسلم ذرائع ابلاغ سے منسوب لوگوں نے ابلاغی پروگراموں کی مدد سے مسلم دہشتگردوں کی لن ترانیوں کا قلع قمع کیا۔سماجی و ثقافتی امور کے ماہرین نے سماجی و ثقافتی معلومات پیش کرکے دہشتگردوں کو لگام لگانے کا بندوبست کیا۔ دراصل غیر اسلامی حلقوں میں سب سے بڑی غلطی یہ ہورہی ہے کہ یہ لوگ جانے یا انجانے میں اسلام کی تعلیمات اور اسلام سے منسوب افراد کے تصرفات کو ایک ہی عینک سے دیکھ رہے ہیں جبکہ عقائد و نظریات اور غیر اسلامی تصرفات دونوں الگ شئے ہیں۔
امت مسلمہ کے تعلیم یافتہ اورجہاندیدہ ایک حلقے کی سوچ یہ ہے کہ عصر حاضر میں استعماری قوتوں کے طوطے جو دعوے اسلام اور اس کے پیروکاروں کے خلاف کررہے ہیں۔ویسے ہی دعوے قدیم زمانے میں بھی اسلام سے عداوت رکھنے والے عناصر کرتے رہے ہیں۔ماضی اور آج کے دعوؤں نیز گزشتہ کل اور آج کے ان کے اہداف میں کوئی فرق نہیں ۔پہلے بھی اسلام اور مسلمانوں پر الزام تراشی کرکے مسلم علاقوں کے قدرتی وسائل، خام اشیاء،بازاروں اور تجارتی مراکز پر قبضے جمائے گئے تھے ،آج بھی مسلم ممالک کو حاصل قدرتی وسائل پر تسلط کیلئے پرانا ڈھونگ نئے انداز میں رچا جارہا ہے۔دشمن یہ جانتے ہوئے کہ اسلام کا دامن دہشتگردی سے پاک و صاف ہے۔ اسلام پر دہشتگردی تخلیق کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں ۔ یورپی و مغربی ممالک کے کرتا دھرتا یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام ،انسانی حقوق کی علمبردار تہذیب کا مالک مذہب ہے۔ اسلام علمی فکر کا موجد مذہب ہے۔اس کے باوجود اسلام کیخلاف تشہیری مہم اندرونی خفیہ ایجنڈے ہی کا پتہ دیتی ہے۔ مسلمانوں اور خو د اسلام پر دہشتگردی کا الزام ناواقفیت یا کسی لغزش کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ الزام جان بوجھ کر بدنیتی سے لگایا جارہا ہے۔ اسلام پر دہشتگردی کی فرد جرم عالمی صہیونیت لگائے ہوئے ہے۔