Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہم نے اپنی ساتھی خوشبو کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے دیکھا'

عمرفاروق

 جب خوشبو کی ساری سہیلیاں سال دو ہزار سولہ میں ان کا ساتھ چھوڑ گئیں اورایڑیاں رگڑرگڑ کرمرنے سے پہلے اس کو آرام کے لیے چارپائی بھی دستیاب نہیں ہوئی تو’آرزو‘ اورانکی دیگر خواجہ سرا دوستوں کو احساس ہوا کہ ایڈز کتنی موزی بیماری ہے    

آج خوشبو اس دنیا میں نہیں ہے، لیکن آرزوکو اس کے ساتھ گزرے ہوئے اپنی زندگی کے بہترین لمحات آج بھی یاد ہیں، اوروہ بدترین لمحات بھی یاد ہیں جب خوشبوکوسارے لوگ اس لئے مرنے کے لیے تنہا چھوڑ گئے تھے کہ اس کو ایڈز تھی، اور ان کو خدشہ تھا کہ اس کے قریب رہنے سے ان کو بھی ایڈز ہو جائے گی۔
اسی لئے آج آرزو فلاحی اداروں کے ساتھ مل کرصوبہ خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے بارے میں آگاہی  پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔
’’ہمیں علم ہے کہ مرض کی تشخیص سے مریض بچ تو نہیں سکتا لیکن ایک عام انسان کی طرح زندہ تو رہ سکتا ہے۔‘‘
’’ہم نے اپنی ساتھی خوشبو کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے دیکھا ہے جب اس کا ساتھ کبھی اکٹھے رہنے والے اور کھانا کھانے والے بھی چھوڑ گئے اور اس سے جان چھپاتے رہے۔‘‘
ایڈز پر کام کرنے والے اداروں کے اندازوں کے مطابقبھارت اور نیپال کے بعد پاکستان جنوبی ایشیا میں ایچ آئی وی مریضوں کی تعداد کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک ہے، جہاں ایڈز کے مریضوں کی زیادہ تعداد انجکشن کے زریعے منشیات استعمال کرنے والوں  کی ہے۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق اس وقت ملک میں تقریبا 160000 افراد اس مرض میں مبتلا ہیں جس میں سے صرف 24500 کے قریب افراد رجسٹرڈ ہوئے  ہیں اوران میں سے بھی صرف 16000 کے قریب اپنا علاج کرواتے ہیں۔
 پروگرام سے منسلک ماہرین کے مطابق ایڈزکا شکار 5115 افراد نشے کے لیے انجکشن استعمال کرتے ہیں اورکئی افراد  ایک ہی انجکشن سےنشہ کرتے ہیں۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے نیشنل مینیجر ڈاکٹر بصیر خان اچکزئی کے مطابق ایڈز کے مریضوں کے رجسٹر نا ہونے سے ملک میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
ڈاکٹر بصیرکا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیشترمریض خود کورجسٹرکروانے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ اس سے سماجی سطح پر ندامت کا احساس ہوتا ہے۔
ملک کے دوسرے صوبوں کے طرح خیبر پختونخواہ میں بھی صورتحال مختلف نہیں جہاں ایڈز کےمریض  بیماری کے ساتھ جڑی بدنامی، اپنے اور اپنے خاندان کی عزت بچانے کی خاطر مر تو جاتے ہیں لیکن علاج کے لیے سامنے نھی آتے۔
’’مرض تب ہی بڑھتا ہے جب مریض اپنا مرض چھپاتا ہے اور احطیاطی تدابیر نہیں اپنائی جاتی جس کی وجہ سے مرض مرد سے مرد، مرد سے عورت یا عورت سے مرد اور پھر بلآخر بچوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔‘‘
ایڈز کنٹرول پروگرام خیبر پختونخواہ کے زمہ داران کے مطابق اس وقت صوبے میں تقریبا 20000 افراد اس مرض میں مبتلا ہیں جن میں سے صرف 5000 ایڈز کنٹرول پروگرام کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔
پشاور کے حیات آباد فیملی کیئر سینٹر میں 4163 رجسٹرڈ مریضوں میں
 99 بچے، 62 بچیاں اور 24 خواجہ سرا بھی شامل ہیں۔ جبکہ 3011 مرد اور 967 خواتین مریض ہیں۔ کوہاٹ کے رجسٹریشن سینٹر میں بھی عورتوں اور مردوں کے علاوہ بارہ بچے اورگیارہ بچیاں بھی شامل ہیں۔
ایڈز کنٹرول پروگرام میں کام کرنے والے ڈاکٹر سعید احمد کے مطابق ایڈز کی بیماری  کی غیر محفوظ جنسی تعلق کے علاوہ  بھی کئ وجوہات ہیں مگر لوگ دوسری وجوہات کو نہیں دیکھتے اور یہی وجہ ہے کہ مریض شرم اور بے عزتی کی وجہ سے سامنے نہیں آتے۔
انکا کہنا تھا کہ بلیڈ، گندے آلات جراہی اور غیر ٹیسٹ شدہ خون لگانے سے بھی یہ بیماری لگ سکتی ہے جس کے لیے لوگوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے لیے آگاہی پرگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔
گزشتہ دنوں پشاور میں ہونے والے ایسے ہی ایک پروگرام میں خواجہ سراووں کو ایڈز کی احتیاطی تدابیراورمریضوں کی رجسٹریشن کی ترغیب دی گئی۔    
  ڈاکٹر سعید احمد نے اس موقع پر بتایا کہ ایڈز ایک لاعلاج مرض ضرور ہے مگر بروقت تشخیص اور ادویات کے استعمال سے مریض عام آدمی کی طرح زندگی گزار سکتا ہے۔  
  لیکن حکومت کی جانب سے بار بار درخواستوں کے باوجود خواجہ سرا رجسٹریشن سے کتراتے ہیں۔    
خوشبو کی موت کے بعد اب آرزو کی خواہش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خواجہ سراووں، جن میں ایڈز تیزی سے بڑھ رہا ہے کو رجسٹریشن کیلیئے راضی کرے، کیونکہ وہ انکی زندگیوں میں رنگینیاں واپس لا کراپنی دوست کی مشکلات کا ازالہ کرنا چاہتی ہیں اور اپنی کمیونٹی کو اس لاعلاج مرض سے بچانا بھی چاہتی ہیں۔ 
( خوشبو ہلاک ہونے والی خواجہ سرا کا فرضی نام ہے۔)

 

                                                                                                                                                                                              

 

شیئر: