رمضان سے قبل منائی جانے والی رسم ’’شعبنہ‘‘ کیا ہے؟
سعودی عرب میں مکہ، مدینہ اور جدہ کے لوگ ماہ رمضان کی آمد سے قبل شعبان کے آخر میں ایک رسم مناتے ہیں جو رشتہ داروں اور دوست احباب سے ملنے ملانے کا ذریعہ ہے۔
جدہ کے تاریخی علاقے کے ایک مکین انجینیئر سامی نوار بتاتے ہیں کہ حجاز کے شہری قدیم زمانے سے شعبنہ کی رسم مناتے چلے آرہے ہیں۔ یہ نام ’’شعبان‘‘ سے ماخوذ ہے۔
شعبنہ کی رسم کے تحت ایک خاندان کے لوگ کسی تفریح گاہ یا ریسٹ ہاؤس کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں مل جل کر پورا دن گزارتے ہیں اور شاندار پرتکلف کھانوں کا انتظام کرتے ہیں۔ اگلے دن کی صبح تک رت جگا کرتے ہیں۔ نوجوان اور دوست احباب بھی گروپ بناکر اسی طرح کا مشغلہ کرتے ہیں۔
بہت سارے نوجوان مل جل کر ریسٹ ہاؤس کرائے پر حاصل کرتے ہیں۔ اس میں اچھی بات یہ ہے کہ اس رسم کے جملہ اخراجات تقریب میں شریک افراد مل جل کر ادا کرتے ہیں جسے’’القطہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
ریسٹ ہائوس کے مالکان شعبان کے آخری ایام میں کرائے 60تا 80فیصد تک بڑھا دیتے ہیں۔ یومیہ کی بنیاد پر ریسٹ ہاؤس کرائے پر لیے جاتے ہیں۔
جدہ کے ایک مقامی کونسلر حسین العمیری بتاتے ہیں کہ اہل حجاز قدیم زمانے سے شعبنہ کی رسم رمضان المبارک کے استقبال کے طور پر مناتے رہے ہیں۔ اس موقع پر ایک جگہ بیٹھ کر کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ مخصوص مشروب ’’سوبیا‘‘ (جوسے تیار کردہ مشروب) پیتے ہیں۔ چٹکلے، لطیفے اور حکمت کی باتیں ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔
نوجوان عبداللہ عایش کا کہناہے کہ وہ شعبنہ کی رسم کے لیے اپنے والد کے ہمراہ 3دن تک صحرا میں ڈیرہ ڈالتا ہے۔
عبداللہ عائش کے مطابق ان کو گھڑ سواری اور تیراکی کا شوق ہے۔ چچا زاد بھائی اور دیگر رشتہ دار بھی ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔
لیکن اس رسم کے حوالے سے بزرگ حضرات نوجوانوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ان بزرگوں کا کہناہے کہ نئی نسل نے شعبنہ جیسی خوبصورت رسم کو اس کی اصل ڈگر سے ہٹا دیا ہے۔ ان کے یہاں سماجی فوائد سے کہیں زیادہ موج مستی اور نفسانی خواہشات کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔
سعود الشریف کہتے ہیں کہ اس رسم کا اصل مقصد رشتہ داروں اور مختلف خاندانوں کے تعلقات میں نئی زندگی پیدا کرنا تھا۔ اس موقع پر لوگ جمع ہوتے ۔ نغمے ، گیت گاتے اورعوامی کھانوں سے لطف اٹھاتے تاہم اب صورتحال بدل گئی ہے۔
یونیورسٹی کے ایک طالب علم عبداللہ خالد نے اس قسم کے تاثرات پر ناگواری کاا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ شعبنہ کی رسم میں ردوبدل فطری امر ہے۔ روایتی تقریبات کو جدید شکل و انداز میں پیش کرنا عصر حاضر کا تقاضا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں نے اپنے ذوق اورمزاج کے مطابق اس میں ردوبدل کیا ہے۔
خالد نیازی کا تعلق مکہ مکرمہ سے ہے، ان کا کہنا ہے کہ نوجوانوں نے اس رسم کو اس کے حقیقی تصور سے عاری کردیا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر نوجوانوں کو یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ اللہ کے واسطے اس سماجی رسم کی شکل نہ بگاڑیں نوجوانوں کے رویے نے علماء کو اس رسم کی بابت سخت باتیں کہنے پر مجبور کردیا ہے۔
معروف کالم نگار محمد السحیمی کا کہناہے کہ حجاز کے لوگ شعبنہ کی رسم احباب سے ملنے یا عازمین حج کو الوداع کہنے کے لیے منایا کرتے تھے۔ اس موقع پر گوشت والے کھانے استعمال کیا کرتے اور رمضان کے دوران دستر خوان پر گوشت سے تیار کردہ کوئی ڈش استعمال نہیں کرتے تھے۔ اب تو یہ رسم محض رسم بن کر رہ گئی ہے۔ چند بوڑھے ہی اسے صحیح معنوں میں ادا کررہے ہیں۔
فقہ اکیڈمی کے رکن ڈاکٹر حسن بن محمد سفر کا کہناہے کہ بعض حضرات شعبنہ کی رسم کو حرام قرار دے رہے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ اس کی حرمت کی بابت کہیں کوئی قرآنی آیت یا حدیث یا فقہی حکم نظر نہیں آتا۔