نئی نسل کے بچے صالح تربیت سے محروم ہوکر ایک ایسی مادر پدر آزاد زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس کے باعث ان میں حیوانی قدریں فروغ پا رہی ہیں
* * * *
ام عدنان قمر۔الخبر
سورۃ الاعراف (آیت: ۲۶) میں فرمانِ الٰہی ہے: { یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَ رِیْشًا وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ} ’’آدمیو ہم نے تم پر کپڑا اُتارا جو تمھاری شرم گاہ کو چھپاتا ہے اور بناؤ (یہ زیب و زینت سجاوٹ) کا سامان (اُتارا یامال و اسباب) اور پرہیزگاری کا لباس یہ (سب سے) بہتر ہے یہ (لباس کا پیدا کرنا) اللہ کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ہے، تاکہ وہ نصیحت لیں۔‘‘ لباس ہمارے پروردگار مقدس کا بہترین عطیہ ہے۔ اس میں اولادِ آدم کی شرمگاہوں کی حفاظت بھی ہے اور زیب و زینت بھی !اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا لباس بھی عطا فرمایا ہے جسے ’’لباسِ تقویٰ‘‘ کہا ہے، جو رُوح کی زینت اور وقار ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کے لیے ایسی تعلیمات اور احکام پیش کرتا ہے جن پر عمل کرنے کے نتیجے میں ایک صالح فرد اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
لباس کے احکام تین قسم کے ہیں
*وہ احکام جو مشترکہ ہیں، یعنی ان کے مخاطب مرد اور عورتیں دونوں ہیں، دونوں کے لیے ان کی پابندی ضروری ہے۔
*وہ احکام جن کی مخاطب صرف عورتیں ہیں، یعنی صرف عورتوں کے لیے وہ ضروری اور لازمی ہیں۔
*وہ احکام جن کا تعلق صرف مردوں سے ہے۔
کتاب و سنت میں مرد اور عورت کے تعلقات کی فطری حدود بتا دی گئی ہیں اور ان تعلقات کی شرعی حدود بھی نمایاں کردی گئی ہیں۔ اسلام کی کچھ تعلیمات تو ایسی ہیں کہ وہ مرد و زن دونوں کے لیے لازمی اور مشترک ہیں، جیسے لباس کے مسائل کا تعلق ہر دو صنفوں سے ہے، مگر زندگی کی کچھ تعلیمات ایسی ہیں جن کا تعلق صرف خواتین سے ہے اور ان میں سے ایک اہم ترین موضوع ’’پردے اور حجاب‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں تک لباس کا تعلق ہے، سورہ اعراف (آیت: ۲۶) میں لباس کو بنی آدم کے لیے پردے اور زینت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ نیز یہ کہا گیا ہے کہ پرہیزگاری کا لباس بھی ہے اور یہ تمھارے لیے بہت بہتر ہے۔ اس فرمانِ الٰہی کی روشنی میں ہمیں ساتر، آرام دہ اور صاف ستھرا لباس زیبِ تن کرنا چاہیے اور لباس کی ساخت اور تراش خراش میں غیر مسلموں کی پیروی سے احتراز کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کی سورہ نور اور سورہ احزاب کی متعدد آیات میں پردے کی اہمیت اور مسائل کو واضح کر دیا گیا ہے۔ کتاب و سنت کے احکام کی پیروی میں صدیوں تک اسلامی مملکتوں میں پردے کی روایت مستحکم رہی، لیکن اٹھارہویں صدی عیسوی میں جب مغرب نے اسلامی ممالک میں اپنا نظام مسلط کیا تو اس کے استحکام کے لیے سامراجیوں یعنی انگریزوں نے ہمارے تعلیمی اداروں پر بھی قبضہ جمانا شروع کیا جس کے نتیجے میں ہمارے یہاں مخلوط معاشرے کا آغاز ہوا اور پھر بے پردہ تعلیمی اداروں کی اتنی حوصلہ افزائی کی گئی کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ساتھ ا سکولوں اور کالجوں میں پڑھنا عام کردیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، دفتری ماحول اور عام معاشرتی زندگی میں بے پردگی کا زہر پھیلنے لگا۔ بے پردگی کی یہ لعنت تمام اسلامی ممالک میں ایک وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ بعض حالات میں تو بے پردگی کے زینے پر سوار خواتین بے حیائی کے دائرے میں داخل دکھائی دیتی ہیں، عورت کی وہ فطری خوبصورتی و سنگھار جسے گھر کی چار دیواری میں سوائے شوہر کے کسی اور کو نظر نہیں آنا چاہیے، وہ اپنی فطری حدودسے نکل کر اخباروں اور بازاروں تک پہنچ گیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے کمالات نے جلتی پر تیل ڈال کر اس منظر کو حیا سوز حد تک بڑھا دیا ہے۔ اسلام ایک مکمل دین ہے ، جس طرح اس میں دین و دنیا کی جامعیت اور زمانے اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے مکمل رہنمائی ہے، اسی طر ح ایک نظامِ عبادت بھی ہے اور نظامِ زندگی کا دستور العمل بھی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اور زندگی سے اسلام کو نکال باہر کیا گیا ہے اور غیروں کی نقالی کو اپنا شعار بنا لیا گیا ہے، حالانکہ اسلام نے غیروں کی مشابہت اور نقالی سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، مگر اب نقالی کی یہ عادت اتنی پختہ ہوگئی ہے کہ اسے ہم نے غلط اور گناہ سمجھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں اور غیر مسلم میں لباس اور پردے ہی کا تو فرق ہے، جو واضح نظر آتا ہے اور اس سے کسی قوم یا کسی مذہب کی پہچان بھی ہوتی ہے، لیکن ہم مسلمان اس ظاہری شخصیت سے بھی عاری ہوگئے ہیں، اسی لیے علامہ اقبال نے کہا ہے ۔
* * * * * * * *
وضع میں ہو تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود
* * * * * * * *
مغربی تہذیب کے زیرِ اثر جن دینی اور معاشرتی اقدار سے دوری اور محرومی ہوئی ہے، ان میں سے ایک پردےکی نعمت بھی ہے، اٹھارہویں صدی عیسوی میں مسلم خاندانوں کی اکثریت حجاب اور پردے کے اقدار کی حفاظت کرتی دکھائی دیتی تھی، مگر گذشتہ تین صدیوں سے دینی اقدار سے غفلت کے نتیجے میں اب صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ سعودی عرب کو چھوڑ کر پاکستان، افغانستان اور ایران کے ساتھ ساتھ تمام بلادِ اسلامیہ میں ہر جگہ بے پردگی ایک وباکی شکل اختیار کرچکی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے بے حیائی کے اس سیلاب میں زبردست تموج پیدا کر دیا ہے۔ صورت ِحال اب بے پردگی سے آگے نکل کر بے حیائی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ جدید مادی تہذیب نے اقتصادی ترقی کے نام پر عورت کو گھر سے نکال کر دفتروں اور فیکٹریوں تک پہنچا دیا ہے۔ نئی نسل کے بچے صالح تربیت سے محروم ہوکر ایک ایسی مادر پدر آزاد زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس کے باعث ان میں حیوانی قدریں فروغ پا رہی ہیں۔ زندگی کے کسی بڑے اور اخلاقی نصب العین سے محروم معاشرے میں وہ حشرات الارض کی طرح پرورش پاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پاک زمین کو فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا رہے ہیں۔ اس غم ناک صورتِ حال سے بچنے کی ایک ہی تدبیر ہے کہ خالقِ کائنات نے انسانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جو وحی کا سامان فراہم کیا ہے اور اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات و اعمال کو اسوہ حسنہ قرار دے کر جس طرح انسانیت کے سامنے رکھا ہے، اس پر صدقِ دل سے عمل کرکے اپنی سیرتوں اور صورتوں کا شرف و جمال سےمحفوظ کیا جائے، اس تعلیم کا ایک اہم ترین باب پردے کا التزام ہے۔ بے پردگی، شیطانی فتنوں کا بہت بڑا دروازہ ہے۔ اس لیے موجودہ بے پردگی کو روکنے اور پردہ دار ماحول پیدا کرنے کی ہمیں اَشد ضرورت ہے۔ یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ اسلام عورتوں کی تعلیم کا سب سے بڑا حامی ہے مگر وہ کسی ایسی تعلیم کو پسند نہیں کرتا جس کے نتیجے میں مسلمان لڑکیاں اپنی دینی اقدار سے محروم اور اسلامی تہذیب کی روشن روایات سے غافل ہوجائیں۔ قرآن مجید میں سورہ نور کی آیتِ مقدسہ میں پردے کی نوعیت، اہمیت اور کیفیت کے بارے میں بھر پور تعلیمات ملتی ہیں، جو اپنے حکم و مزاج کے لحاظ سے نصوص کا درجہ رکھتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پردے کے احکام کے بارے میں بہت تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔
مکمل مضمون روشنی20جنوری2017کے شمارے میں ملاخطہ فرمائیں