پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات، طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت کے بعد ہو گی۔
جمعے کو ’اردو نیوز‘ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ دوحا میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات کی راہ ہموار کرے گی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا عمران ٹرمپ ملاقات، ان مذاکرات میں پیش رفت سے مشروط ہے تو شاہ محمود قریشی نے کہا ’مشروط تو نہ کہیے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ مذاکرات آگے بڑھتے ہیں اس سے ماحول سازگار ہو جائے گا۔‘
’دونوں اہم شخصیات ہیں، اور اس خطے کے امن اور استحکام میں دونوں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس میں پیش رفت بھی ہو رہی ہے اور دوحا میں مذاکرات جاری ہیں۔ ان میں پیش رفت ہوئی ہے۔ وہ پیش رفت آگے بڑھے تو اس کے امکانات موجود ہیں اور ان امکانات سے ہمارے بائی لیٹرل تعلقات میں ایک نئی اووپننگ ہو سکتی ہے۔‘
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین ویزوں کا کوئی تنازع نہیں ہے اور تین سرکاری افسران کے ویزے پر عائد ہونیوالی پابندی عارضی ہے۔
”ہم نے ڈیپورٹیشن کا مسئلہ بہت حد تک سلجھا لیا ہے اور یہ عارضی پابندی بھی جلد ختم ہو جائے گی۔‘‘
ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور دنیا کو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کاروائیوں اور دہشت گردی کی فنڈنگ کو روکنے کے اقدامات کو تسلیم کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایک وفد اس وقت چین میں ایف اے ٹی ایف کو دہشت گردی کے خلاف کیے جانیوالے اقدامات سے آگاہ کر رہا ہے اور توقع ہے کہ جون میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کر دیا جائے گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان سمیت خطے میں امن کا خواہاں ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گا کیونکہ افغانستان میں استحکام سے پورے خطے میں ترقی اور استحکام کا ایک نیا دور آئےگا۔
ایران کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پڑوسی اسلامی ملک سے اچھے تعلقات ہماری ضرورت ہیں اور یہ صدیوں پر محیط ہیں۔ ا
انہوں نے کہا کہ کچھ قوتیں، جن کے اپنے ایجنڈے اورمقاصد ہیں ان کے حصول کے لیے پاکستان اور ایران میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں اور جب بھی یہ کوشش ہوتی ہے پاکستان اور ایران سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کی سطح پر بات چیت کر کے یہ غلط فہمیاں دور کر لیتے ہیں۔
’’یہ وہی قوتیں ہیں جو ایران کو اس خطے کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں اور ایران کو نیچا دکھانا چاہتی ہیں‘‘۔