آپ پہلی بار لاہور میں شاہی قلعہ دیکھنے جائیں، آپ کو قلعے کے محل وقوع کا اندازہ نہ ہو اورآپ کے ساتھ گائیڈ بھی نہ ہو تو آپ صدر دروازے سے داخل ہو کر سیدھے قلعے کے اندر چلے جاتے ہیں، جہاں مختلف راہداریاں، دیوان اور باغیچے آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔
اگر اس راستے پر چلتے ہوئے آپ کی نظر بائیں طرف نہ پڑے تو سمجھیں کہ آپ نے ایک دنیا اور اس کی پوری تاریخ نہیں دیکھی لیکن نظر پڑ جائے تو پھرآپ مرکزی دروازے سے آگے قدم نہیں بڑھا پائیں گے اور آپ کا پورا دن ایک پندرہ سودس فٹ لمبی اور پچاس فٹ چوڑی دیوار کو گھورتے گزر جائے گا۔
شاہی قلعے کی اس بیرونی دیوار پر بنے نقش و نگار ہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں کیونکہ ان میں برصغیر کی صدیوں پر محیط تاریخ پنہاں ہے۔
ثقافتی ماہرین کی طرف سے دنیا کی سب سے بڑی آرٹ وال قرار دی جانے والی یہ دیوار دلچسپ سجاوٹی چوکھٹوں سے مزین ہے جن پر جنگی مناظر، فرشتے، پریاں، جنات، انسانی طرز زندگی، ہاتھی، گھوڑے، چرند پرند، پھول، پتے، درخت، اور مغلیہ دور کے برتن دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں تقریباً 400 سال پہلے تعمیر ہونے والی اس دیوار پر بنے یہ نقش و نگار مختلف ادوار میں ہونے والے واقعات بالخصوص جنگوں اور بادشاہوں کے درباروں کی کارروائی کی عکاسی کرتے ہیں۔
اکبر کے بعد جہانگیر نے بھی اس دیوار کی سجاوٹ میں اہم کردار ادا کیا لیکن شاہ جہاں کے دور حکومت میں دیوار کی تزئین و آرائش پر خصوصی توجہ دی گئی اور اسی دور میں سنہ 1632 میں اسے مکمل کیا گیا ۔ یوں یہ دیوار تین مغل بادشاہوں کے ذوق کی عکاس ہے۔
لیکن مغلوں کے بعد سکھوں، انگریزوں اور پھر قیام پاکستان کے بعد بننے والی حکومتوں کے ادوار میں اس شاندار تاریخی ورثے سے چشم پوشی کی گئی جس کی وجہ سے قلعے کی شکست و ریخت کے ساتھ ساتھ یہ دیوار اور اس پر بنی تصاویر کی حالت بھی خستہ ہوگئی۔
اس دیواراور اس کے نقش و نگار کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے یونیسکو نے اس کوبین الاقوامی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔
بالآخر سنہ 2015 میں اس دیوار کی بحالی کا عمل شروع کیا گیا اور سنہ 2016 میں اس کے 30 فٹ چوڑے اور 40 فٹ اونچے ایک حصے کی بحالی کا کام مکمل کر لیا گیا ۔ سنہ 2017 میں دیوار کے تین سو پچاس فٹ چوڑے اور پچاس فٹ اونچے مغربی حصے کی بحالی اور تزئین و آرائش کا کام شروع کیا گیا، جو اس ماہ کے اوائل میں مکمل ہوا جس کے بعد اس دیوار پر مزیں چھ سو پینتیس تصاویری نمونے مکمل طور پر محفوظ ہو گئے۔
دیوار کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے لاہور کی والڈ سٹی اتھارٹی نے آغا خان کلچر سروس پاکستان، ناروے، جرمنی اور کئی دیگر دوست ممالک کے تعاون سے نہایت باریک بینی سے کام کیا ہے۔ دیوار کی سجاوٹ میں کاشی کاری، بنت کاری، نقاشی، پکاکلی اور تراشی ہوئی چھوٹی اینٹوں کو استعمال کیا گیا ہے جس سے یہ دیر تک محفوظ رہ سکے گی ۔
ڈائریکٹرجنرل والڈ سٹی اتھارٹی کامران لاشاری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس شاہکار کی تزئین وآرائش ہماری برسوں کی محنت ہے جس میں ہم نے صدیوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔‘
پراجیکٹ ڈائریکٹر نجم الثاقب کہتے ہیں کہ دیوار کی بحالی کا مقصد اس تاریخی ورثے کو محفوظ بنانا ہے۔
’اگر اس کو اب نہ بچاتے تو شاید صرف کتابوں میں ہوتا کہ یہاں بھی مغلیہ دور کی کوئی یاد تھی ۔ لیکن اب یہ موجود اور محفوظ ہے ۔ ہم نے اس یاد کو ماضی بننے سے بچایا ہے اور مسقبل کے لیے محفوظ کر لیا ہے۔‘
ان کے مطابق شاہی قلعہ کے عظیم الشان درو دیوار میں شاندار زندگی دفن ہے ۔ اس کا احساس ہماری آنے والی نسلوں اور پاکستان کا سفر کرنے والے سیاحوں میں زندہ رکھنا بہت ضروری ہے۔
بحالی کے بعد آرٹ وال اپنے طول و عرض، ساخت اور نفیس رنگوں کے انتخاب کی وجہ سے غیر معمولی توجہ حاصل کر رہی ہے ۔ دیوار کے ارد گرد چہچہاتے پرندوں کی آوازیں، نقش و نگار، دلکش رنگوں کا انتخاب اور دنیا بھر سے آنے والے سیاح منظر کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے ہیں۔
انہی سیاحوں میں سے ایک الجیریا سے آئی جمیلہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ شاہی قلعہ میں آنے والے سیاح اس تاریخی ورثہ کے شیدائی ہو گئے ہیں۔
انہوں نے اس دیوار کو آرٹ کا بہترین نمونہ قرار دیا۔
سرگودھا یونیورسٹی سے آئی طالبہ آئمہ خان نے کہا کہ آرٹ وال ان کو محسوس کرواتی ہے کہ مغل بادشاہ فن اور آرٹ سے کس قدر لگاؤ رکھتے تھے۔
کامران لاشاری کے مطابق سیاحوں کے اس خوشگوار رد عمل نے ان کی محنت کا پھل دے دیا ہے۔
’’ہمیں خوشی اور فخر ہے کہ ہم نے اس دیوار کو جسے مردہ سمجھا جا رہا تھا زندگی دی ہے۔‘‘