بجٹ میں کیا بتایا گیا؟ کتنی آمدن کتنا خرچہ ہوا۔ خسارہ کہاں تک پہنچا، فوج کا خرچہ کیوں منجمد ہوا، تیل چینی صابن کتنے مہنگے سستے ہوئے اور افراطِ زر کیا بلا ہے۔ نیز حزبِ اختلاف نے بجٹ تقریر سنے بغیر اسے کیوں مسترد کر دیا۔
سب تجزیہ باز اور چینلیے انہی باتوں میں لگے پڑے تھے۔ مگر مجھے ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں تو انتظار کر رہا تھا اپنے وزیرِاعظم کے قوم سے خطاب کا۔
انتظار کا سبب یہ تھا کہ بجٹ تقریر کے فوراً بعد کسی وزیرِاعظم نے آج تک قوم سے خطاب نہیں کیا۔ یقیناً وزیرِاعظم قوم کو کوئی ایسی بات بتائیں گے جو یا تو بجٹ تقریر میں شامل ہونے سے رہ گئی یا پھر اتنی اہم ہے کہ وزیرِاعظم نے اس راز کو بزاتِ خود افشا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
جب تقریر کا وقت دوبار تبدیل ہوا تو مجھ جیسوں کو پکا پکا یقین ہوگیا کہ کوئی ایسی غیر معمولی بات ضرور ہے جس پر آخری وقت تک مشورہ ہو رہا ہے کہ ایک ایسے وقت جب ملک نازک اقتصادی دوراہے پر کھڑا ہے اس راز کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لینا ضروری ہے یا نہیں۔
تو کیا وزیرِاعظم بجٹ کی سختیوں سے عام آدمی کو بچانے کے لیے اپنے تئیں کوئی غیر معمولی پلان پیش کرنے والے ہیں؟ کیا وہ یہ بتانے والے ہیں کہ اب کی بار واقعی کراچی کے ساحل کے قریب تیل کا فوارہ چھوٹ گیا ہے اور اس خوشی میں حکومت نے چینی، گیس، بجلی، گوشت، مرغی وغیرہ پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے؟ یقیناً کوئی نہ کوئی تو اہم اور تاریخی بات سامنے آنے والی ہے۔
پر جب نو بجے ہونے والی تقریر ساڑھے دس کے بجائے پونے بارہ بجے شروع ہوئی تو ایک لمبی قرآت اور قومی ترانے کے بعد پہلا جملہ یہ تھا کہ آج شام جو بجٹ پیش ہوا ہے وہ تحریکِ انصاف کے ریاستِ مدینہ بنانے کے وعدے کا عکاس ہے۔
ریاستِ مدینہ کا زکر کرتے کرتے جانے کب خان صاحب کنٹینر پر چڑھ گئے اور دھرنے کے پرانے نوٹس دھرانے شروع کر دئیے ، لٹیرے ، چور ، چھوڑوں گا نہیں ماروں گا چن چن کے بلا بلا بلا۔۔۔
پھر یہ ’اہم اور تاریخی‘ اعلان ہوا۔
”ابھی تک مجھ پر پریشر تھا ملک کو مستحکم کرنے کا۔ اب اللہ کا کرم ہے پاکستان مستحکم ہو گیا ہے۔ اب میرے اوپر سے وہ پریشر ختم ہو گیا ہے۔ اب میں نے ان کے پیچھے جانا ہے۔ میں اپنے نیچے ایک ہائی پاور انکوائری کمیشن بنانے لگا ہوں جس کا ایک ون پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ 10سالوں میں انھوں نے اس ملک پر 24 ہزار ارب روپے قرضہ کیسے چڑھایا‘‘۔
اس کمیشن میں بقول خان صاحب آئی ایس آئی، آئی بی، ایف بی آر، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے تفتیش کار شامل ہوں گے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ”شاید میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے” جس کے سبب ٹائپ شعر پڑھنے والا ہوں۔ ہرگز نہیں۔
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک، انتہا ہے یہ (میر)
چلئے کمیشن بھی بن جائے گا۔ مگر ثابت کیا ہوگا ۔یہی نا کہ لٹیرے لوٹ کے لے گئے۔ مگر آپ تو پہلے ہی چوروں اور لٹیروں کا تعین کر چکے ہیں۔ کمیشن اس کے بعد کیا نیا سانپ پٹاری سے نکال کے دکھائے گا؟ اگر یہ اتنا ہی ضروری تھا تو صرف دس سال میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کا کمیشن اگلی صبح بھی قائم ہو سکتا تھا۔
بجٹ تقریر کے بعد لگ بھگ نصف شب کو اس ”تاریخی اعلان‘‘ کی منطق ڈھونڈنے کے چکر میں وہ جراح یاد آ گیا جو استرے سے خوفزدہ بچے کی توجہ بٹانے کے لئے کہتا ہے وہ دیکھو چڑیا اڑی کوا اڑا۔ بچہ جب سوئے آسمان چڑیا اور کوا تلاش کرنے لگتا ہے تو جراح فٹ سے ختنہ کر دیتا ہے۔
