جب کبھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کی بات ہوتی ہے تو سرحدوں، افواج اور سفارتی محاذوں پر تعلقات میں بگاڑ آنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان پانی کے معاملے پر بھی کشیدگی شروع ہو جاتی ہے۔
یہی صورت حال پہلگام میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد بھی پیدا ہو گئی جس کے تحت انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
لیکن یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ طاس معاہدہ کب اور کیسے ہوا؟
معاہدے کا پس منظر
سنہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جب پاکستان اور انڈیا دو الگ ریاستیں بنیں تو نہروں اور دریاؤں کا وہ نظام، جو متحدہ ہندوستان میں موجود تھا دو ممالک کے درمیان بٹ گیا۔
چونکہ پاکستان کے بیشتر دریائی نظام کا منبع انڈیا میں تھا، اس لیے 1948 میں انڈیا نے دریائے بیاس، ستلج اور راوی کا پانی بند کر کے خطرے کی گھنٹی بجا دی، جس کے بعد پاکستان کی زراعت، جو مکمل طور پر انہی دریاؤں پر انحصار کرتی تھی، خطرے میں پڑ گئی۔
سندھ طاس معاہدہ
اس سنگین صورت حال کے بعد عالمی بینک کی ثالثی کے ذریعے پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1960 میں سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) انڈیا کو دیے گئے، جبکہ تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کے حصے میں آئے۔
معاہدے کے تحت پاکستان کو اپنے حصے کے دریاؤں پر مکمل حقوق دیے گئے، اور انڈیا کو صرف بجلی پیدا کرنے یا آب پاشی کے مخصوص منصوبوں کے اختیارات دیے گئے۔
سندھ طاس معاہدے کی پاکستان کے لیے اہمیت
آبی وسائل پر کام کا وسیع تجربہ رکھنے والے ماہر ڈاکٹر آصف جاوید کے مطابق سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ ایک ’لائف لائن‘ ہے۔
ان کے مطابق ’اس معاہدے کے تحت پاکستان نے تربیلا، منگلا جیسے بڑے ڈیم تعمیر کیے ہیں اور اپنی زراعت کو نہری نظام سے جوڑا ہے۔‘
ڈاکٹر آصف جاوید نے اردو نیوز کو بتایا کہ گذشتہ برسوں میں انڈیا کی جانب سے مغربی دریاؤں پر ڈیمز اور آبی منصوبوں کی تعمیر نے پاکستان میں تشویش پیدا کی ہے۔
’کشن گنگا اور رتلے جیسے منصوبے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھے گئے، جن پر پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر اعتراضات بھی اٹھائے۔‘
’جنگوں کے دوران بھی معاہدہ برقرار رہا‘
سندھ طاس معاہدہ ان چند بین الاقوامی معاہدوں میں شمار ہوتا ہے جو شدید تنازعات اور جنگوں کے باوجود بھی قائم رہے۔
ڈاکٹر آصف جاوید کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حالات نہایت کشیدہ تھے، دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بھی منقطع ہو چکے تھے، تاہم اس کے باوجود انڈیا نے مغربی دریاؤں کے پانی کی روانی کو نہیں روکا۔ معاہدہ تکنیکی سطح پر بدستور فعال رہا اور فریقین نے پانی کی تقسیم سے متعلق تعاون برقرار رکھا۔
’اسی طرح 1999 کی کارگل جنگ، جو کہ محدود پیمانے پر لڑی گئی، اس دوران بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا کوئی واضح واقعہ ریکارڈ پر نہیں آیا۔‘