حرم مکی کے ستون کہاں سے لائے گئے، ایک دلچسپ کہانی
ہفتہ 15 جون 2019 3:00
خالد خورشید -اردو نیوز، جدہ
حرم مکی میں قدیم دالانوں اور رواقوں کی اپنی تاریخ ہے جہاں روزانہ ہزاروں لوگ گزرتے رہے لیکن بیشتر اس کی تاریخ سے لاعلم رہے۔ حتٰی کہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
’مطاف توسیعی پراجیکٹ‘ کے تحت اب عباسی اور ترک دور کے رواقوں کی دوبارہ بحالی کا کام مکمل کیا گیا ہے۔ شاہ عبداللہ کے دور میں شروع ہونے والی مسجد الحرام کی توسیع کے بعد اب یہ سعودی قیادت کے زیر اہتمام عالم اسلام کا مشترکہ ورثہ ہے۔
قدیم اور جدید تعمیر کا امتزاج
بارہ سو سال پہلے قدیم دالانوں کی تعمیر کے لیے ٹنوں وزنی سنگ مرمر کے ستونوں کو عراق و شام سے مکہ مکرمہ تک لانا اب تک نا قابل یقین اور پراسرار سی بات لگتی ہے۔
اس تعمیری شاہکار کو دیکھ کر بہت سے سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ مثلاً معماروں اور تعمیراتی سامان کو کیسے اور کہاں سے لایا گیا، کتنے معماروں نے یہ کام کیا، اس پر کتنی لاگت آئی، پھر درست پیمائش کر کے ٹنوں وزنی ستونوں کو کھڑا کر کے چھت کیسے ڈالی گئی جو سینکڑوں سال تک برقرار رہی؟ اس وقت تمام کام ہاتھ سے کیا جاتا تھا اور تعمیراتی کام کئی سال جاری رہا۔ ٹیکنالوجی اور لاجسٹک کے بغیر یہ ناقابل فراموش تعمیراتی کام یقینا قدیم فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔
مکہ کے سابق مشیر اور معروف پاکستانی آرکیٹکٹ سلیم بخاری نے اردو نیوز کو بتایا کہ رواقوں کی دوبارہ بحالی کے کام میں سنگ مر مر اور پتھر کے سینکڑوں برس پرانے ستونوں کو نئی تعمیر میں دوبارہ استعمال کیا گیا ہے۔ قدیم مطاف کے دالانوں کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے ستونوں کی تعداد دوس سے تین سو جبکہ ان کی اونچائی لگ بھگ پانچ میٹر تھی۔ نئی تعمیر میں ستونوں کا ڈیزائن اور اونچائی تبدیل کی گئی ہے۔ یہ اونچائی عباسی اور ترک دور سے زیادہ ہے۔ ہر ستون کے نیچے ایک بڑا بیس بھی تعمیر کیا گیا ہے تاہم قدیم اور نئے رواقوں کے ڈیزائن میں کوئی خاص فرق نہیں۔
مختلف ادوار میں حرم مکی کی توسیع
حرم مکی کی مختلف ادوار میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی۔ مطاف کی بڑی توسیع عباسی خلیفہ مہدی کے دور میں کی گئی۔ ترکوں کے دور میں اس توسیع کے اوپر چھت ڈالی گئی، گنبد اور محراب بنائے گئے۔ اسی لیے حرم کے قدیم دالانوں کو ترکوں سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ بعد ازاں شاہ سعود اور شاہ فہد کے دور میں توسیع ہوئی لیکن سارا توسیعی کام ترکوں اور بنو عباس کے قدیم دالانوں کے باہر کیا گیا تاہم شاہ عبداللہ کے دور میں مطاف کی توسیع کے لیے قدیم دالانوں کو منہدم کرکے دوبارہ بنایا گیا ہے۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ عباسی خلیفہ المہدی نے مطاف کے دالانوں کی تعمیر شروع کی۔ اس کے بیٹے موسی الہادی نے اسے مکمل کیا۔ دالانوں کی تعمیر کے لیے شام اور عراق سے سنگ مر مر کے ستون منگوائے گئے۔ ان پر لکڑی کی بیموں کی چھت ڈالی گئی جو تقریباً 800 سال برقرار رہی۔ 1570ء میں لکڑی کی چھت میں آگ لگنے سے سنگ مرمر کے کئی ستون گر گئے اور کچھ چٹخ گئے۔
اس وقت کے ترک سلطان سلیم دوئم کے حکم پر ٹوٹے ہوئے ستونوں کی جگہ پتھر کے ستون لگائے گئے اور جو ستون چٹخ گئے تھے ان کی مرمت کرتے ہوئے انہیں لوہے کی پتریوں سے باندھا گیا جبکہ کچھ کو پلستر کر کے جوڑا گیا۔
ایک اندازے کے مطابق قدیم دالانوں میں ہر چار میں سے ایک ستون کی مرمت کی گئی یا اسے پتھر کے ستون سے تبدیل کیا گیا۔ قدیم دلانوں میں عباسی دور کے ستون نصب ہیں تاہم لکڑی کی چھت گرنے کے بعد پکی چھت اور گنبد ترکوں کا کام ہے۔ اس کے لیے لال پتھر وادی فاطمہ سے لائے گئے تھے جو شمیسی کے قریب پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ اس طرح کے کچھ پتھر اب بھی موجود ہیں۔
قدیم ستونوں پر کیا تحریر ہے؟
مطاف کے دالانوں میں جو ستون نصب ہیں ان میں بعض پر کچھ تحریریں بھی ہیں۔ کئی ستونوں پر تاریخ درج ہے اور لکھا ہے یہ کام کوفہ کے لوگوں کا ہے۔ ستونوں کے ساتھ ان کے کیپٹل اور بیس ہیں، یہ تینوں حصے علیحدہ بنتے ہیں۔ کیپٹل پر بھی کاریگروں نے نقش و نگار بنائے ہیں۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کہاں کے لوگوں کا کام ہے۔
کئی ستونوں پر واضح طور پر لکھا ہے کہ خلیفہ مہدی نے یہ کام شروع کیا۔ کئی ستونوں پر ترکوں کے زمانے کی تحریریں ہیں۔ ایک پر سلطان مراد خان کا نام درج ہے لیکن تاریخ موجود نہیں۔ دو ستون ایسے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ وہ راستہ ہے جسے پیغمبر اسلام صفا کی طرف جانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق 15 سے 20 ستون ایسے ہیں جن پر تحریریں موجود ہیں۔ ستونوں پر درج عبارتوں سے ان کی تاریخی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ستون کہاں سے لائے گئے؟
مطاف کے دلانوں میں نصب ستون کتنے پرانے ہیں اور کہاں سے لائے گئے، اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ پہلے خیال تھا کہ یہ ستون شام اور مصر سے لائے گئے ہوں گے لیکن اب ماہرین کا تحقیق کے بعد اس بات پر اتفاق ہے کہ بیشتر ستون غالباً عراق سے لائے گئے کیونکہ شام یا مصر سے ان ستونوں کا مکہ لانا مشکل تھا۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ کوفہ سے ان ستونوں کو بحری راستے سے لایا جا سکتا ہے کیونکہ کوفہ دریا کے قریب ہے۔ کشتی میں ستون لاد کر سمندر کے راستے سعودی بندرگاہ الشعیبہ تک لایا جانا ممکن لگتا ہے۔ بہ نسبت دمشق یا حلب سے کیونکہ ساحلی پٹی بحیرہ احمر کی طرف ہے۔ یا تو ستونوں کو بحری جہاز پر لاد کر پہلے عقبہ کی بندرگاہ بھی لے جایا جاتا اور وہاں سے جدہ کی بندرگاہ لایا جاتا لیکن تاریخ میں اس راستے کا کوئی ذکر نہیں۔ شام سے زمین کے راستے بھی یہ کام ممکن نہیں تھا۔
دنیا میں سنگ مرمر جتنی بھی کواری ہیں ان میں ہر ایک کا سنگ مرمر مختلف ہے۔ اس سے سنگ مرمر کے علاقے کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان ستونوں کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر ستون ایک وقت میں ایک ہی کواری یعنی جگہ سے لائے گئے۔
ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سنگ مر مر کو کوفہ میں لاکر پہلے انہیں ستونوں کی شکل دی گئی پھر کشتی پر لاد کر جدہ کے قریب الشعیبہ بندرگاہ تک لایا گیا۔
غالب امکان یہی ہے کہ ستونوں کو بصرہ سے خلیج عرب کے راستے عمان، حضر موت اور یمن سے ہوتے ہوئے الشعیبہ بندرگاہ لایا گیا ہوگا۔ اس زمانے میں الشعیبہ ماہی گیروں کی چھوٹی سی بستی تھی۔