’ہم وہ پیدائشی حاکم ہیں جو ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں‘
جمعہ 21 جون 2019 3:00
سہیل سانگی -کراچی
جتوئی خاندان نے وفاقی وزارت سے لیکر وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم تک عہدے حاصل کیے۔ (فوٹو: فلیکر)
’ہم پیدائشی حاکم ہیں، لہٰذا کسی نہ کسی طرح سے اقتدار میں رہتے ہیں۔‘ یہ الفاظ غلام مرتضیٰ جتوئی کے ہیں جو انہوں نے ایک امریکی صحافی کو اپنے گاﺅں اور زمینوں کے دورے کے دوران کہے تھے۔ جتوئی اس جاگیردار طبقے کا نمائندہ ہیں جو اب ختم ہونے جا رہا ہے تاہم سندھ کے معاشرے اور سیاست میں اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد جو بھی حکومتیں آئیں انہوں نے زمین کی ملکیت کی تقسیم میں عدم توازن کو کبھی بھی ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نتیجے میں وڈیرے، سردار جاگیردار، خان، چوہدری اور بھوتار اپنی قبائلی زمینی وراثت کے ساتھ موجود رہے۔
یہ افراد لوگوں پر معاشی اور معاشرتی حوالے سے ہی نہیں سیاسی حوالے سے بھی حکمرانی کرتے رہے ہیں۔
سندھ میں جتوئی خاندان کے پاس سب سے بڑی زمینداری رہی ہے لہٰذا پانچ نسلوں سے سیاست و حکمرانی میں رہنے والے اس خاندان کے سیاست میں مقام کی وجہ قبیلہ یا برادری نہیں بلکہ زمینیں اور سماجی روابط ہیں۔
غلام مصطفیٰ جتوئی سے لیکر مسرور جتوئی تک کو سیاست اور زمین باپ دادا سے ورثے میں ملیں۔ اس خاندان کے افراد نے وفاقی وزارت سے لیکر وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر اعظم تک کے عہدے حاصل کیے۔
غلام مصطفیٰ جتوئی کے دادا خان بہادر امام بخش خان جتوئی 1923 سے 1931 تک تین مرتبہ بمبئی لیجسلٹو اسمبلی کے رکن رہے۔ ان کے والد غلام رسول جتوئی 1946 اور 1952 میں دو مربتہ سندھ اسمبلی کے رکن رہے۔
خاندان کے منصب اور اثر و رسوخ میں اضافہ غلام مصطفیٰ جتوئی نے کیا، شاید اس میں بڑا کمال بھٹو کی مینٹرشپ کا تھا۔
غلام مصطفیٰ جتوئی بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ایک بھائی غلام مجتبیٰ جتوئی رکن اسمبلی بھی رہے۔ غلام مجتبیٰ جتوئ طبیعت میں بڑے بھائی سے مختلف تھے ۔ دوسرے بھائی ڈاکٹر عبدالغفار جتوئی ہارٹ سرجن ہیں۔
سیاسی کریئر کا آغاز ضلع کونسل نوابشاہ کے چیئرمین کے عہدے سے کیا اس طرح انہیں موقع ملا کہ وہ علاقے کے بااثر لوگوں سید، انڑ، ڈاہری، راجپر سے روابط قائم کریں اور مختلف برادریوں اور طبع کے لوگوں کو ساتھ لیکر چلنےکا تجربہ ہوا۔
سندھ میں زبان کے مسئلے پر ہونے والے ہنگاموں کے بعد جتوئی کو 1977 وزیراعلیٰ سندھ مقرر کیا گیا۔ وہ اس عہدے پر فائز رہے تاوقتیکہ ضیاءالحق نے مارشل لاء نافذ کیا اور منتخب حکومت برطرف کردی۔
بھٹو کے قابل اعتماد ساتھی
ساڑھے چار عشروں پر محیط سیاسی کریئر رکھنے والے جتوئی پیپلزپارٹی کے قیام سے لیکر ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت تک بھٹو کے قابل اعتماد ساتھی رہے۔
جتوئی کی شریف طبع اپنی جگہ لیکن بھٹو نے ان کو اس وجہ سے بھی جگہ دی کہ ان کی موجودگی سے وڈیرہ طبقے کو یقین رہے کہ یہ پارٹی ان کی ہے اور وہ سب کو ساتھ لیکر چلنے کی پالیسی رکھتے تھے۔
آئین پر دستخط نہ کرنے اور حکومت مخالف لابنگ کرنے پر جب ذوالفقار علی بھٹو نےاپنی ہی پارٹی کے ایم این اے رئیس عبدالحمید جتوئی کو گرفتار کیا تو غلام مصطفیٰ جتوئی ثالث بنے۔
سندھ کی سطح پر ممتاز بھٹو اور غلام مصطفیٰ جتوئی دو الگ انتہائیں تھی، ان کی آپس میں کبھی نہیں بنی۔ مقامی سطح پر دربیلو کے ظفر علی شاہ کا سید اور جتوئی خاندان ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔
ضیاء دور میں سیاسی جوڑ توڑ
بھٹو کی گرفتاری اور عدالت سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے رہنما ممتاز بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ، کوثر نیازی وغیرہ خاموش ہو گئے۔ پارٹی کی قیادت بیگم نصرت بھٹو کر رہی تھیں۔ اس زمانے میں غلام مصطفیٰ جتوئی بیگم صاحبہ کے ساتھ کھڑے رہے۔
غلام مصطفیٰ کھر کی تجویز پر جتوئی نے مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے جنرل ضیاء کے قائم کردہ الیکشن سیل کے ممبران سے ملاقات کی۔ الیکشن سیل کے ممبران کی اس تجویز سے اتفاق کیا کہ حکومت پیپلزپارٹی اور پاکستان قومی اتحاد کی جماعتوں پر مشتمل اجلاس بلائے جس میں ترکی کی طرز پر فوج کے سیاست اور حکومت میں مداخلت سے متعلق آئینی کردار متعین کرنے کے حوالے سے یقین دہانی حاصل کی جائے۔
جتوئی کا اصرار تھا کہ پیپلزپارٹی سے صرف ان لوگوں کو بلایا جائے جن پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ جتوئی نے کہا کہ اگر بھٹو کو بلایا گیا تو معاملہ گڑبڑ ہوگا۔ البتہ بھٹو کی غیر موجودگی میں غلام مصطفیٰ کھر اور وہ خود باقی ہم خیالوں سے مل کر معاملہ سنبھال سکتے ہیں لیکن مارشل لاء حکام نے غیر یقینی حالات کی وجہ سے انتخابات ملتوی کردیئے۔
جتوئی خاندان کی خواتین بھی سڑکوں پر
جتوئی نے ضیاء مخالف اتحاد ایم آرڈی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اگست 1983 میں ایم آرڈی کی اپیل پر ' جیل بھرو تحریک' چلی توسندھ میں پیپلزپارٹی سندھ کے صدر ہونے کے ناطے اس کی قیادت جتوئی نے کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جتوئی خاندان کی خواتین احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلیں، ان کے بیٹے غلام مرتضیٰ جتوئی نے اپنے خلاف قتل کے مقدمات دائرہونے کے بعد چند ماہ روپوشی اختیار کی۔
پارٹی میں جتوئی کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا کیونکہ ان کا جھکاﺅ حکومت کی طرف سمجھا جاتا تھا۔ محمود ہارون ضیاء کا پیغام لیکر جتوئی کے پاس گئے تھے کہ جنرل انہیں وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں جتوئی اور مولانا کوثر نیازی ضیاءالحق سے ملاقات کی۔ وہ ضیاء کو ملک کا صدر تسلیم کرنے کے لئے تیار تھے۔ جتوئی اب خود کو قومی سطح کا لیڈر سمجھنے لگے تھے۔
پیر پگارا، چوہدری ارشد، مولانا نورانی کے ساتھ ایک میٹنگ میں طے پایا کہ جنرل ضیاء جتوئی کی سربراہی میں قومی حکومت بنائیں گے جو انتخابات کرائے گی۔ اس تجویز پر بیگم نصرت بھٹو نے شدید ردعمل کا اظہار کیا کہ اگر ہمای طاقت پر کوئی اقتدار حاصل کرتا ہے، اسے فوراً پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ جنرل ضیاء پیپلزپارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے ڈرے ہوئے تھے لہٰذا پیپلزپارٹی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے غیر جماعتی انتخابات کرائے۔
خیال ہے کہ سندھ کے وڈیرے اور گدی نشین جتوئی کی اس یقین دہانی پر سڑکوں پر آئے تھے کہ تین ماہ کے اندر ان کی حکومت بن جائے گی۔ ملک کے باقی حصوں میں موثر انداز میں تحریک نہ بن پائی ۔ جب سندھ میں یہ تحریک ریڈیکل لوگوں کے ہاتھ میں جارہی تھی۔ ایسے میں جتوئی کا بیان آیا کہ’ ماضی کی تلخیاں بھلا دیں۔‘ اس بیان کے بعد تحریک ختم ہو گئی۔
'بھٹو فیملی ہیرو۔۔۔'
جتوئی کے سیاسی مستقبل کو اس وقت جھٹکا لگا جب 1986 میں بینظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں۔ انہوں نے جتوئی کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹا دیا اور مخدوم خلیق الزماں پارٹی کے سندھ میں صدر مقرر ہوگئے۔ جتوئی کا کہنا ہے کہ انہیں ان کی اعتدال پسندی کی وجہ سے ہٹایا گیا۔
اسی سال جتوئی بیرون ملک سے وطن لوٹے اور انہوں نے بینظیر بھٹو کے استقبال کے مقابلے میں اپنا بی بڑا استقبال کرانا چاہا لیکن جب وہ کراچی ایئر پورٹ پر اترے تو ہجوم نے 'بھٹو فیملی ہیرو ہیرو باقی سب زیرو' کے نعرے لگا کر انہیں مجبور کیا کہ وہ بینظیر بھٹو کی تصویر کو سلام کریں۔ یوں جتوئی کا استقبال بینظیر کی حمایت میں تبدیل ہوگیا۔
بعد میں انہوں نے غلام مصطفیٰ کھر، حنیف رامے، حامد رضا گیلانی، کمال اظفر حامد سرفراز ملک، آفتاب جیلانی ان کے ساتھ مل کر نیشنل پیپلزپارٹی بنائی۔ خیال تھا کہ پیپلزپارٹی پر دباﺅ بڑھے گا تو اراکین اسمبلی پارٹی چھوڑ کر جتوئی کی پارٹی میں آجائیں گے۔
ضیاءالحق کے مرنے کے بعد پورا سیاسی منظر تبدیل ہو گیا۔ غلام اسحاق خان نے انتخابات کا اعلان کیا تو بے نظیربھٹو نے جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کا سلسلہ شروع کیا جس نے لاکھوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ضیاء دور میں اسٹبلشمنٹ سندھ سے وزیراعظم نہیں لینا چاہتی تھی۔ پگارا اس بات پر ضیاء سے ناراض ہوگئے یہاں تک کہ محمد خان جونیجو کی برطرفی کے بعد جتوئی نگران وزیراعظم کے خواہشمند تھے لیکن ضیاء نے رسک محسوس کیا۔ ضیا ء نواز شریف کو ایک بڑے لیڈر طور پر سامنے لے آئے۔
ضیاء کی موت کے بعد مقتدر حلقوں نے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں نو جماعتی اسلامی جمہوری اتحاد بنایا۔ جتوئی کو اس کا سربراہ بنایا گیا، انتخابات میں دوسرے بڑے بڑوں کی طرح جتوئی سندھ میں تو انتخاب ہار گئے۔
جتوئی کو ان کی آبائی نشست پر شکست کے لیے پگارا کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ اسیّ کی دہائی میں جتوئی نے انہیں وزیراعظم بننے نہیں دیا تھا۔ بہرحال جتوئی آئی جے آئی کے سربراہ تھے لہذا انہیں ادھار کی سیٹ پر ضمنی انتخابات میں منتخب کرایا گیا۔ کوٹ ادو کی یہ نشست ان کے دوست غلام مصطفیٰ کھر نے خالی کی تھی۔
بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد جتوئی کو نگراں وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ اب وہ وزیراعظم بن جائیں گےلیکن خفیہ ادارے نے نواز شریف کے حق میں بازی پلٹ دی۔
اقتدار کی بھول بھلیاں
نواز شریف کے اسی دور حکومت میں وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی کے انتقال کے بعد جتوئی ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کو وزیرعلیٰ سندھ بنانا چاہ رہے تھے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ پگارا اور نواز شریف دونوں نہیں چاہ رہے تھے کہ جتوئی کا بندہ وزیراعلیٰ سندھ بنے۔ لہٰذا قرع سید مظفر حسین شاہ کے نام کا نکلا۔
نواز شریف دور حکومت میں مرتضیٰ جتوئی وزیر مواصلات رہے۔ وہ اپنے گاﺅں میں شوگر مل لگانا چاہتے تھے لیکن نواز شریف نے شوگر مل لگانے کا اجازت نامہ دینے سے انکار کردیا تاہم، سیاسی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کی مطلق العنان رجحانات کی وجہ سے جتوئی نے ان کے خلاف تحریک چلانے میں بینظیر بھٹو کا ساتھ دیا۔
جب صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیاں شدید کشمکش چل رہی تھی اس وقت جتوئی صدر کے کیمپ میں تھے۔ اس مرتبہ بھی وہ نگراں وزیراعظم بننا چاہتے تھے۔ مقابلے میں حامد ناصر چٹھہ اور بلخ شیر مزاری تھے۔ پگارا نے جتوئی کی مخالفت کی تو صدر غلام اسحاق نے شریف حکومت کو1993 برطرف کرکے بلخ شیر مزاری کو نگران وزیراعظم مقرر کردیا۔
انہوں نے ایک مرتبہ صحافیوں سے نجی گفتگو میں کہا تھا کہ اقتدار ایسا پیالہ ہے جو ایک مرتبہ ہونٹوں کو چھو لے تو عمر بھر پیاس رہتی ہے۔
نیشنل پیپلزپارٹی جو ایک خاندان کی ہی پارٹی ہے۔ ضلع میں پارٹی سے زیادہ جتوئی گروپ کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ اس نے 1993 انتخابات کے بعد بینظیر بھٹو کی مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی اور پھر صدر فاروق لغاری نے بینظیر کی حکومت کو برطرف کردیا۔
معراج خالد کے نگراں دور میں منعقدہ انتخابات میں جتوئی نہ جیت سکے، اس کے بعد خود کھیلنے کے بجائے اپنی دوسری نسل کو کھیلنے کا موقع دیا۔
مشرف دور جتوئی خاندان کے لئے سنہری دور تھا۔ ان کے گروپ نے قومی اور سندھ اسمبلی کی سولہ سولہ اور سینیٹ کی تین نشستیں حاصل کیں۔
یہ ایک ریکارڈ تھا کہ ایک ہی خاندان کے چار افراد ملک کے تین منتخب ایوانوں کے رکن تھے ۔
2009 میں غلام مصطفیٰ جتوئی کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے غلام مرتضیٰ سیاسی معاملات دیکھ رہے ہیں۔ مرتضیٰ جتوئی گذشتہ سال کے انتخابات میں اپنے آبائی حلقے سے ہار گئے، بڑے جتوئی منجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاستدان تھے۔ وہ ملک گیر سطح کی سیاست کرتے تھے اور ان کے تعلقات و روابط بھی اتنے وسیع تھے۔ ان کے بعد پارٹی سکڑ گئی اور اب جتوئی خاندان کی سیاست ضلعے کی سطح پر آگئی ہے۔