Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں ملازمت اور رہائش کے لیے کن قوانین کا جاننا ضروری؟

پاکستان میں اکثر یہ بحث رہتی ہے کہ قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں قوانین پر سختی سے عمل کرایا جاتا ہے اور اگر خاص کر آپ روزگار کے لیے ان ممالک میں مقیم ہیں تو وہاں کے قوانین کو سمجھنا زیادہ اہم ہو جاتا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنےسے کسی مشکل میں پر سکتے ہیں۔
اگر مشرق وسطیٰ کی بات کی جائے تو سعودی عرب میں جنوبی ایشیائی سے افرادی قوت کی بڑی مانگ رہی ہے اور اسی لیے  یہاں غیر ملکی بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔
یہاں مقیم غیر ملکی شہریوں کو ویزہ اور یہاں ملازمت کے دوران متعلقہ قوانین کے لیے جاننا ضروری ہے۔
جس میں پہلا یہ کہ سعودی قانون محنت  کے مطابق  غیر ملکی کارکنا ن پر لازم ہے کہ وہ اپنے کفیلوں ( سپانسرز ) کے پاس ہی کام کریں اور اس کے علاوہ  دوسری جگہ کام کرنے والے قانو ن شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں  جسے عربی اصطلاح میں " عمالہ سائبہ "  ( آزاد گھومنے والے کارکن ) کہا جاتا ہے۔

دوسری جگہ کام کرنے پر قانونی مشکلات

 ایسے افراد پر  وزارت محنت کی  قانون کی شق نمبر39  لاگو ہوتی جس  کے مطابق ایسے غیر ملکی کارکن جو کسی دوسری جگہ کام کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں وہ  قید اور جرمانے کی سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں جبکہ ایسے افراد کو سعودی عرب میں تین برس کے لیے بلیک لسٹ بھی کر دیا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں مشکل میں پر سکتے ہیں: تصویر اے ایف پی

ایسے افراد  عمرہ ، حج اور  ورک ویزے پر  مذکورہ مقررہ مدت تک سعودی عرب نہیں آ سکتے  بلکہ خلیجی ممالک  اور سعودی عرب  کے مابین  طے پانے والے معاہدے کے مطابق بلیک لسٹ ہونے والے افراد کسی خلیجی ریاست میں بھی نہیں جا سکتے۔ 

سعودی عرب میں رہائش اور کام کاج کے لیے کیا ضروری

سعودی عرب میں رہائش کے خواہشمند غیر ملکیوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ کسی  مقامی شخص یا ادارے کی کفالت (سپانسر شب) حاصل کریں اور اس  کے بغیر یہاں رہنا اور کام کرنا ممکن نہیں۔

سعودی عرب میں پاکستانی شہریوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے: تصویر اے ایف پی

سعودی عرب کے قانون کے مطابق جس شخص یا ادارے کی کفالت حاصل کی جاتی ہے اسے کفیل اور جو کفالت لیتا ہے اسے مکفول کہا جاتا تھا۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
منفرد اقامہ منسوخ ہوا تو اثاثوں کا کیا بنے گا؟
سالانہ منفرد اقامہ فیس میں کوئی رعایت ہوگی؟

سعودی عرب کے آزاد ویزے کا مطلب کیا؟

جنوبی ایشیا کے لوگوں میں عام طور پر "آزاد ویزے" کا تصور پایا جاتا ہے جس کے مطابق وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ آزاد ویزے پر سعودی عرب آئے ہیں اور جہاں چاہیں کام کرکے روزی کما سکتے ہیں۔
یہ قطعی طور پر بے بنیاد اور غلط تصور ہے جسے ایجنٹوں نے اپنی کمائی کی خاطر بنایا ہوا ہے۔ عام سادہ لوح افراد چار سے پانچ  لاکھ روپے کا ویزہ خرید کر سعودی عرب آتے ہیں اور جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ویزا ان کے پیشے سے مطابقت نہیں رکھتا تو ان کا کفیل سے اختلاف شروع ہو جاتاہے جس پر ایسے افراد اپنے کفیلوں کے پاس سے فرار ہو جاتے ہیں۔

ہروب کا مطلب کیا؟

قانون محنت میں کسی بھی کارکن کا فرار ہونا سب سے بڑا جرم تصور کیاجاتا ہے جس پر "ہروب " کی اصطلاح لاگو کی جاتی ہے ایسے افراد جن  کا محکمہ پاسپورٹ  (جوازات )کے سسٹم میں ہروب لگا دیا گیا ہو اگر" ہروب" یعنی" فرار  

کے الزام کو 15 دن کے اندر ختم نہ کرایا جائے تو اس کے بعد کمپیوٹر خودکار طریقے سے اسے افراد کو  مستقل بنیادوں پر" مطلوب "کی فہرست میں شامل کردیتاہے جس کے بعد نہ تو وہ آزادی سے کہیں آجا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی جگہ کام کرنے کے قابل رہتے ہیں۔
ایسے افراد کو پناہ دینا، روزگاراور سفر کی سہولت مہیا کرنے والے بھی قانون کی نظر میں برابر کے مجرم مانے جاتے ہیں۔جن افراد کا" ہروب" لگایا جاتاہے ان کے فنگر پرنٹس اور دیگر معلومات سعودی عرب کے تمام ہوائی اڈوں، بری چوکیوں اور بندرگاہوں پر جوازات کے سسٹم میں خودکار طریقے سے فیڈ ہو جاتی ہیں۔
 مقررہ مدت یعنی 15 دن گزرنے کے بعد لیبر کورٹ سے ہی اس بات کا فیصلہ ہو سکتاہے کہ "ہروب" کن حالات میں لگایا گیا تھا اور اسے کس طرح ختم کیا جا سکتا۔
مقررہ مدت (15 دن)کے گزرنے کے بعد کفیل بھی اگر چاہے تو ہروب منسوخ نہیں کروا سکتا۔ اس لیے مملکت میں مقیم تارکین کو اس بات سے باخبر رہنا چاہیے کہ وہ کس بھی حالت میں ہروب کے زمرے میں نہ آئیں جو بعد میں ان کے لیے ی نہیں بلکہ ان سے متعلق دیگرافراد کے لیے بھی مشکلات کا موجب بن سکتا ہے۔
 

شیئر: