دنیا بھر کی ٹیمیں ورلڈکپ سے کم از کم دو سال قبل اس میگا ایونٹ کی تیاری، وننگ کمبی نیشن، پلان اے، بی اور یہاں تک کہ پلان سی کی منصوبہ بندی کرتی ہیں لیکن ٹھہرئیے یہ پاکستان کرکٹ ہے۔
پاکستان نے ورلڈکپ سے ایک ہفتہ قبل محمد عامر اور وہاب ریاض کو ورلڈکپ سکواڈ میں شامل کیا اور پھر میگا ایونٹ کے پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست فاش کے بعد ہی کہیں جاکر پلان بی کا صرف خیال آیا۔
شاہین شاہ آفریدی کو ٹیم میں کھلانے کا پلان بنا۔ بھارت سے شکست کے بعد جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ جیسے سورماؤں کو ہرایا لیکن پھر افغانستان سے میچ پھنسا ڈالا۔
اس جیت اور ٹیم کو میں کیا نام دوں، دل کو کیسے سنبھالوں؟

گزشتہ تحریروں میں پاکستان ٹیم کی آئی سی یو سے منتقلی، معاملات میں بہتری اور معجزے کی امید ظاہر کی تھی، معجزے تو ہوتے گئے۔ جیسا کہ پہلے انگلینڈ سری لنکا سے ہارا اور پھر پاکستان نے جنوبی افریقا اور نیوزی لینڈ کو شکست سے دوچار کیا۔
ادھر جنوبی افریقہ نے سری لنکا کو ہرا کر ہمارے ایک اور ممکنہ حریف کو سیمی فائنل سے باہر کرایا لیکن یہ کیا؟ سب کچھ ہونے کے بعد بھی یہ ٹیم خود کو مارنے پر تل گئی۔
اس جیت اور ٹیم کو میں کیا نام دوں، دل کو کیسے سنبھالوں؟
پورے خاندان کو منایا، لڑکی کا رشتہ تڑوایا اور پھر لڑکا سب چھوڑ کر بھاگنے لگا؟
ہیڈنگلے لیڈز میں یہ سب کچھ ہوتے ہوتے رہ گیا۔
افغان ٹیم کی 56 رنز پر تین وکٹیں گرانے کے بعد ایک Must win Match میں 227 رنز کروا ڈالے۔
بیٹنگ کا امتحان آیا تو پہلے فخر پھر امام اور پھر ٹیم کے نئے ’وزیر اعظم‘ بابر اعظم نے جس انداز سے وکٹیں گنوائیں اس کے بعد اس میچ کا آخری اوور تک جانا تو ٹھہر ہی گیا تھا۔

سرفراز کے احمقانہ رن آؤٹ کے بعد پانچ جولائی کے اگلے دن چھ جولائی کو پاکستان کی ہیتھرو ائیر پورٹ سے کراچی لاہور اسلام آباد روانگی تقریبا طے ہو گئی تھی۔
افغان جلیبی، افغان پلاؤ اور کراچی صدر کے مشہور چلو کباب کے افغان بیف بوٹی سے ساری زندگی سے نفرت کے خیالات بھی ذہن میں منڈلانے لگے تھے۔
لیکن پھر عماد وسیم بانوے والے انضمام الحق بن گئے۔ ایوریج اور اوور ریٹڈ کہلانے والا یہ آل راؤنڈر میچ وننر ثابت ہوا۔
ماضی میں مستقبل کا کپتان سمجھا جانے والا واقعی مستقبل کا کپتان نظر آنے لگا۔
افغان جلیبی پر بھنگڑے ڈالنے کا موڈ بننے لگا۔ میچ کے بعد جیت کے جشن میں افغان پلاؤ اور کباب کی مہک کا سوچ کر ہی منہ میں پانی بھر آیا۔
