پیارے پاکستانیو! میرا نام شاہراہ دستور ہے اور یہ نام اس وجہ سے رکھا گیا تھا کہ پاکستان کے دستور کے تحت وجود میں آنے والے بیشتر ادارے میرے ہم رکاب ہیں۔
میرے مرکز میں پاکستان کےعوام کے منتخب نمائندوں پرمشتمل اور اپنی بالادستی کی جنگ لڑتی پارلیمنٹ واقع ہے جس کا کام مفاد عامہ کے لیے قانون سازی کرنا ہے اور اس کے پہلو میں ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ ہے جس سے لوگ انصاف کی توقع کرتے ہیں۔
ملک کے انتظامی سربراہ یعنی وزیر اعظم کے دفتر کی بھی میں میزبان ہوں اورایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، سول سیکرٹریٹ، وفاقی شرعی عدالت، پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر بھی میرے ہی ساتھ ہیں۔
سنہ 2007 سے قبل میرے ملک کے شہریوں کو مجھ تک بلا روک ٹوک رسائی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ابتدائی برسوں میں بھی پاکستانی شہری بغیر کسی جھجک کے میرے ساتھ سفر کرکے ایوان ہائے اقتدار میں آتے اور مختلف سرکاری دفاتر میں اپنے کام نمٹاتے تھے۔ میرے کنارے لگے لمبے گھنے درخت، جو میرے لیے گھنی زلفوں کے مترادف ہیں، کے سائے میں آرام کرتے تھے۔
قومی اور مذہبی تہواروں پر سرکاری عمارات کو جب برقی قمقموں سے سجایا جاتا تو میں بھی روشنی میں نہا جاتی اور جڑواں شہروں کے رہائشی ان روشنیوں کو دیکھنے کے لیے جوق در جوق میرے مہمان بنتے جنہیں دیکھ کر میں بھی پھولی نہ سماتی۔

لیکن آج میں دکھی دل کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوں کیونکہ جس دستور کے نام پر مجھے نام دیا گیا اس کی بنیاد شخصی اور شہری آزادی ہے لیکن میں یعنی شاہراہ دستور 2007 سے قید ہوں، خاردار تاریں، سیمنٹ کے بلاکس اور ناکے میرا مقدر بنا دیے گئے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ نو مارچ 2007 کو ایک فوجی آمر نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو عہدے سے ہٹا کر ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا جس کے نتیجے میں وکلا شاہراہ دستور یعنی میری سنگت میں جمع ہوئے۔ پھر جوڈیشل کونسل کی ہر سماعت پر وکلا اور سیاسی کارکن آنے لگے تو حکومت نے میرے وجود کوعلاقہ ممنوعہ قرار دے کرعوام کا داخلہ بند کر دیا اور مجھے غیر اعلانیہ طور پر قید تنہائی کا شکار کرنے کی کوشش کی گئی۔
وکلا اور سیاسی جماعتوں کی جدوجہد جاری رہی اور ہر سماعت پر رونق لگتی رہی۔ جوڈیشل کمیشن نے ریفرنس کو مسترد کر دیا تو کچھ دنوں کے لیے میں واقعی تنہا سی ہو گئی لیکن تین نومبر 2007 کو جب دوبارہ ایمرجنسی لگی تو کالے کوٹ اور رنگ برنگے جھنڈے تھامے لوگ ایک بارپھرجمع ہونے لگے لیکن اس دفعہ مناظر تکلیف دہ تھے کہ آئے روز پولیس لاٹھی چارج کرتی، آنسو گیس برساتی اور مجھے اپنے مہمانوں کو زخمی حالت میں دیکھنا پڑتا۔

اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور متعدد صحافیوں پر ہونے والے تشدد کو میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ سنہ 2014 میں میرا دل یعنی ڈی چوک کئی ماہ تک پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کا مرکز بنا رہا۔ وہ دھرنے شاید ان کے لیے تو خوشگوار یادیں رکھتے ہوں لیکن میرے لیے ان میں کچھ بھی خوشگوار نہ تھا۔
سنہ 2008 سے 2019 تک تین جمہوری حکومتیں وجود میں آئیں لیکن کسی نے بھی مجھے آزاد کرانے کا نہ سوچا۔ اگر کسی نے بات کی بھی تو سرکاری بابوئوں نے انہیں سکیورٹی خدشات سے ڈرا کرمیری قید میں اضافہ کردیا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے میرے پڑوس جناح ایونیو سے آنے والا راستہ کھولا تو حفاظتی نگہبانوں نے بلاکس کی جگہ آہنی گیٹ کھڑا کر دیا جسے جب دل چاہے بند کر دیا جاتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں بے جان سڑک اتنی جذباتی اور دکھی کیسے ہو سکتی ہوں تو یقین کریں یہ جذباتی پن یک طرفہ نہیں ہے۔ میرے ارد گرد موجود دفاتر میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین بھی ان پابندیوں پر بہت دکھی ہیں۔
