مسائل کا حل تو سجھائی نہیں دے رہا لہذاٰ نان ایشوز ہی ایشو ہیں۔ مثلاً لفظ سلیکٹڈ کا استعمال پارلیمانی ہے کہ غیر پارلیمانی۔جسے سلیکٹڈ کہا جا رہا ہے وہ بھی اسے ہنسی ٹھٹھے میں اڑانے کے بجائے اور سیریس ہو گیا ہے۔
ایک دوسرے کو طعنے دیے جا رہے ہیں کہ کون ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار نہیں ہے۔ بحث دفن ہونے یا آگے بڑھنے کے بجائے ہمیشہ کی طرح گول گول گھوم رہی ہے ۔
حیرت ہے اب تک کسی کا دھیان اس پر کیوں نہیں گیا کہ اس ملک کے بچوں کو پولٹیکل سائنس سے زیادہ پولٹیکل انجینیئرنگ کا مضمون پڑھانے کی ضرورت ہے ۔تاکہ ہمارے ہاں اٹکل پچو جگاڑو مستریوں کی جگہ ماہر پولٹیکل انجینیئر پیدا ہو سکیں جو زیادہ نفاست کے ساتھ آج کے دور کی قومی سیاسی ضروریات معیاری انداز میں پوری کر سکیں۔
ہمارے ہاں کوئی ایک پاور سینٹر آج تک نہ بن پایا نہ مستقبلِ قریب میں امید ہے۔چنانچہ ہمیں نظام اور اس کے کل پرزوں کو رواں رکھنے کے لیے تھوڑے تھوڑے عرصے بعد پولٹیکل انجینیئرنگ کرنا پڑتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
سلیکٹڈ وزیر اعظم مشرف ہی سے سبق سیکھ لیں‘ ترجمان بلاولNode ID: 366516
-
عمار مسعود کے اس کالم کو پڑھنا منع ہےNode ID: 423921
اس وقت ہمارے ملک کا اقتدارِ اعلی کہنے کو تو اللہ میاں کی امانت ہے جسے صادق و امین منتخب نمائندوں کے ذریعے برتنے کا ناممکن آئینی وعدہ کیا گیا ہے۔اب ساڑھے تین سو صادق و امین ہم کہاں سے لائیں؟
چنانچہ اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے ہم نے ایک کسوٹی یہ بنائی ہے کہ جو اسٹیبلشمنٹ کے ریکارڈ میں جب تک صادق و امین ہو اسی پر اعتبار کیا جائے۔اگر کمی بیشی ہو تو پرانوں کی جگہ نئے تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔
اس سلسلے کا پہلا بڑا تجربہ انیس سو پچپن میں ہوا جب ون یونٹ بننے کے عمل کے دوران مشترکہ یا جداگانہ انتخاب کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کے خدا سکندر مرزا سے مسلم لیگ کی ٹھن گئی اور ایک رات میں’دم گڑم ابم پریتم صف شکن‘ کا منتر پڑھ کے جھرلو پھیر دیا گیا اور چادر کے نیچے سے مسلم لیگ کی جگہ ری پبلکن پارٹی اٹھ کھڑی ہوئی جس کے کندھے پر ڈاکٹر خان عبدالجبار خان عرف ڈاکٹر خان صاحب کو بٹھا دیا گیا۔
وہی خان صاحب جن کی خیبر پختون خوا کی وزارتِ اعلی پاکستان بنتے ہی مشکوک حب الوطنی کی پاداش میں غیر جمہوری انداز میں ختم کر دی گئی تھی۔
خان صاحب کچھ عرصہ جیل میں رہے اور پھر انہیں اقتدار اینڈ سنز کا کلوروفارم سنگھا کر پولٹیکل سرجری کی گئی اور دماغ میں وفاداری کا چپ لگا دیا گیا۔ بعد از ڈسچارج بصد اطمینان انہیں نہ صرف ری پبلکن پارٹی بلکہ ون یونٹ کے تحت مغربی پاکستان کی پہلی وزارتِ اعلی بھی تھما دی گئی۔
اگلی پولٹیکل انجینیئرنگ بنیادی جمہوریت پرائمری سکول کا قیام تھا۔ اس کے پرنسپل ایوب خان اور وائس پرنسپل ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ مقصد یہ تھا کہ کنونشن مسلم لیگ کے اساتذہ دس کروڑ گدھوں کو جمہوری ابجد کی بنیادی تربیت دیں جیسے انگریزوں نے بنیادی جمہوریت سے پچاس برس پہلے ہوم رول سکول میں چالیس کروڑ ہندوستانیوں کی تربیت کی تھی۔ بنیادی جمہوریت سکول بھی ناکام رہا۔پہلے وائس پرنسپل سبکدوش ہوا اور انیس سو انہتر میں پرنسپل کی چھٹی کے ساتھ سکول بھی بند ہوگیا ۔
1970 کے الیکشن میں بھی پولٹیکل انجینیئرنگ کی کوشش ہوئی مگر یہ بھی ناکام رہی۔البتہ ٹکنیکل سکول آف اسٹیبلشمنٹ نے جہاندیدہ ذوالفقار علی بھٹو کو پوسٹ گریجویٹ سکالر شپ کی پیش کش کی۔بھٹو صاحب ڈیڑھ ذہین نکلے ۔سکالر شپ بھی لے لی اور پوسٹ گریجویشن کے بعد ٹکنیکل سکول کو بھی تالا مارنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں تالے کے بجائے خود مارے گئے۔
اس کے بعد نئے پرنسپل کے تحت سکول نے اپنے نصاب میں کئی بنیادی تبدیلیاں کیں۔ ایک تبدیلی یہ تھی کہ اپرنٹس شپ کے بعد فارغ التحصیل طلبا کو ’جب اور جہاں ضرورت پڑی‘ کے اصول پر حلف اٹھاتے ہوئے سکول سے وفاداری کا بونڈ بھرنا پڑے گا۔بصورتِ دیگر ڈسپوز آف کردیا جائے گا۔
اس کے بعد اسمبلی میں مسلم لیگ کے نئے ماڈل کی سمبلنگ ہوئی۔ ٹرائل تو کامیاب رہا مگر جب پروڈکٹ کی مارکیٹنگ ہوئی تو کاپی رائٹس اندرونی جھگڑے میں پھٹ پھٹا گئے۔جس کے ہاتھ جو پنا آیا اس نے اسی کی بنیاد پر اپنی لیگ بنالی۔ایک شاخ پنپ گئی جسے بعد میں پی ایم ایل این کہا گیا ( کئی برس بعد اسی کی بائی پروڈکٹ مسلم لیگ ق کو مارکیٹ میں لانچ کیا گیا مگر وہ بھرپور اشتہاری مہم کے باوجود صارفین کو زیادہ نہ بھا سکی)۔
تحریکِ انصاف کی فارسی کیا ہے۔اس کا ترجمہ کرنے کے لیے کچھ مزید شواہد درکار ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ اور کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی کھل ہی جائے گی۔
قومی مارکیٹ کے تقاضوں اور ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی پولٹیکل انجینیئرنگ کے کامیاب اور ناکام تجربے ہوئے۔جیسے سندھ میں کئی قوم پرست رہنماؤں کو طاقت کے انجکشن لگائے گئے تاکہ وہ پھول کر اتنے کپا ہو جائیں کہ ہر کوئی انہیں دیکھ سکے۔
اللہ جانے یا تو انجکشن ایکسپائرڈ تھے یا پھر تجربے کے لیے منتخب کیے جانے والے رضاکاروں کا انتخاب غلط ہوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی آج بھی اپنے نام کا کھا رہی ہے۔
سن اسی کے عشرے میں سندھ کی شہری سیاست کو پیپلز پارٹی اور بات بے بات خوامخواہ پھیل جانے والی چراندی مذہبی سیاسی جماعتوں کے وائرس سے دور رکھنے کے لیے ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ نے ایم کیو ایم کو ایک متبادل قوت کے طور پر مارکیٹ کیا۔
مگر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جب اس بتِ کافر میں جان ڈالنے کا تجربہ ہوا تو انسٹرکٹرز کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس بار اس کی طبیعت صاف کرنے کے لیے پہلے سے بہتر انتظام کرنے کی کوشش کی گئی مگر پرانی ٹیکنالوجی اور فارمولوں کے ساتھ۔
مزید پڑھیں
-
وسعت اللہ خان کا کالم: کُرتا شاندار مگر پاجامہ غائب
Node ID: 423121
-
پاکستانی اپوزیشن کا مخمصہ، فریحہ ادریس کا کالم
Node ID: 424276