سعودی عرب میں ’کیش فری پروگرام پر بھی تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
2020 کو سعودی عرب کے لیے بڑی معاشی تبدیلیوں کا سال قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ آئندہ برس معاشی اور دیگر شعبوں میں متعدد تبدیلوں کی توقع ہے۔ ظاہر ہے اس کے اثرات بھی معاشرے پر مرتب ہوں گے۔
سعودی عرب میں ’کیش فری پروگرام پر بھی تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ ابتدائی مرحلے کا آغاز تمام پیٹرول سٹیشنز سے کیا گیا ہے۔ دوسرا مرحلہ آئندہ ہفتے سے شروع کیا جائے گا جس میں گلی محلوں کی سطح پر قائم کریانے کی دکانوں سے لے کر ہوٹلوں اور رجارتی سرگرمیوں کے دیگر مراکز شامل ہوں گے۔
14 جولائی سے پیٹرول سٹیشنز کو دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے پر ان کی چیکنگ کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ وزارت بلدیات نے تین ماہ قبل پیٹرول سٹیشنز کے مالکان کو متنبہ کر دیا تھا کہ وہ اپنے سٹیشنز پر ڈیبٹ کارڈ سے رقم وصول کرنے کے لیے سعودی پیمنٹ نیٹ ورک کی سہولت حاصل کریں تاکہ مرحلہ وار پیٹرول سٹیشنز پر نقدی کا لین دین ختم کیا جا سکے۔
پیٹرول سٹیشنز کے بعد کیش فری پروگرام کے حوالے سے دوسرے مرحلے کا آغاز آئندہ ہفتے سے کیا جائے گا جس میں سعودی عرب کے تمام شہروں اور قصبوں میں تجارتی مراکز، دکانوں اور اداروں کو اس امر کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ بینکوں میں کرنٹ اکاؤنٹ کھولیں اور صارفین سے رقم کی وصولی نقد کے بجائے مرحلہ وار بینک ڈیبیٹ کارڈ کے ذریعے کریں ۔
متعلقہ اداروں نے دوسرے مرحلے کی ڈیڈ لائن 23 اگست 2020 مقرر کی.
سعودی عرب کے مستقبل کے وژن 2030 کے تحت ترقیاتی منصوبوں میں سب سے اہم ہدف مقامی شہریوں کو روزگار اور تجارت کے مواقع فراہم کرتے ہوئے ’تجارتی پردہ پوشی‘ کے رجحان کا خاتمہ بھی ہے۔
’تجارتی پردہ پوشی‘
سعودی قانون تجارت کے مطابق مملکت میں ورک ویزے پر مقیم کوئی بھی غیر ملکی اس بات کا مجاز نہیں کہ وہ کسی سعودی شہری کے نام سے کاروبار کرے۔ تجارتی پردہ پوشی جسے عربی میں ’تستر تجارتی‘ کہتے ہیں، کے رجحان کے خاتمے کے لیے وزارت تجارت و سرمایہ کاری، وزارت بلدیات، سعودی بینکنگ کونسل اور سعودی مانٹرینگ ایجنسی کے اشتراک سے تفتیشی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔
تجارتی پردہ پوشی کے مرتکب افراد کو قید، جرمانے اور ملک بدری کے علاوہ پابند کیا جاتا ہے کہ وہ مقامی اخبارات میں اشتہارت کے اخراجات برداشت کرے جن میں جرم اور کاروبار کی نوعیت کی وضاحت کی جاتی ہے۔
قانون کے مطابق غیر قانونی طریقے سے کاروباری کرنے میں ملوث صرف غیر ملکیوں کو ہی سزا نہیں دی جاتی بلکہ جس شہری کے نام سے کاروبار کیا جا رہا ہو اس کو قید اور جرمانے کے علاوہ اس کا تجارتی لائسنس محدود مدت کے لیے منسوخ کر دیا جاتا ہے۔
کیش فری پروگرام کیا ہے؟
اردو نیوز نے مملکت میں کیش فری منصوبے کے حوالے سے سعودی بینکنگ کونسل کے ترجمان طلعت حافظ سے گفتگو کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کے وژن 2030 میں سعودی معاشرے کو کیش فری کرکے الیکٹرانک پے منٹ کی جانب لے جانا ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’مستقبل کے ویژن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری کوشش ہے کہ 2030 تک اس منصوبے کا کم از کم 70 فیصد ہدف حاصل کر لیا جائے جس کے لیے تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ہمارا منصوبہ ہے کہ آئندہ برس 2020 تک ہم 28 فیصد ہدف حاصل کر لیں۔‘
اس بارے میں سعودی مانیٹرنگ ایجنسی نے متعدد منصوبے شروع کر رکھے ہیں جن میں سے ایک کو ’سریع‘ کا عنوان دیا گیا ہے اس کے علاوہ ’سداد‘ پروگرا اور ’مدی پیمنٹ‘ کارڈ کی سہولت کی فراہمی بھی شامل ہے۔
تمام بینکوں کی جانب سے یہ سہولت فراہم کی گئی ہے کہ وہ اپنے صارفین کو خصوصی ڈیبیٹ کارڈ جاری کرتے ہیں جن میں ’مدی پیمنٹ‘ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
سعودی عرب کیش فری کیوں؟
طلعت حافظ کا کہنا تھا کہ دنیا تیزی سے تبدیلی کی جانب گامزن ہے اور سعودی عرب بھی اس پروگرام پر عمل پیرا ہے۔
ان کے مطابق ’سعودی عرب کے علاوہ بھی بیشتر ممالک اس منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔ اس امر سے بھی ہر ایک بخوبی واقف ہے کہ ہزاروں کی نقدی ہاتھ میں رکھنا بھی مشکل ہوتا اس بارے میں لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جبکہ ڈیجیٹل ذرائع آسان ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی معیشت کے استحکام کے لیے یہ ضروری ہے کہ دورِ جدید کے تقاضوں کو اپنایا جائے۔‘
اب تک کس حد تک کامیابی ملی؟
بینکنگ کونسل کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک اس منصوبے پر خاطر خواہ کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
ان کے مطابق ’انتہائی مختصر وقت میں ہم نے تین لاکھ 50 ہزار نئے سیل پوائنٹس جاری کئے جو ایک اچھی شروعات ہے۔‘
کیش فری پروگرام، تجارتی پردہ پوشی کے خلاف
سعودی عرب میں تجارتی پردہ پوشی کے خلاف برسر عمل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نقدی کا لین دین ختم کرنے کا بنیادی ہدف تجارتی پردہ پوشی کا خاتمہ ہے کیونکہ رقم کا لین دین نقدی کی صورت میں ختم ہونے سے تمام معاملات کا ریکارڈ محفوظ ہو گا۔ تجارتی پردہ پوشی کمیٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وژن 2030 پر عمل کرتے ہوئے سعودی عرب میں تمام تجارتی اداروں، مارکیٹوں، دکانوں کے مالکان کو نوٹسز ارسال کیے جا رہے ہیں جن میں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 25 اگست 2020 تک اپنی دکانوں اور تجارتی اداروں میں ڈیجیٹل ادائیگی کی سہولت مہیا کر دیں۔
مقررہ تاریخ کے بعد تفتیشی کمیٹی کی جانب سے مذکورہ خدمت فراہم نہ کرنے پر جرمانے اور سزاؤں کا نفاذ کیا جائے گا۔
شہری کیا کہتے ہیں؟
سعودی عرب میں لیموزین کمپنیوں میں ٹیکسی ڈرائیورز کی اکثریت غیر ملکیوں پر مشتمل ہے جبکہ سعودی ڈرائیور اپنی نجی ٹیکسی چلاتے ہیں۔
پیٹرول سٹیشنز پر ادائیگی بینک کارڈ کے ذریعے کرنے کے حوالے سے غیر ملکی ڈرائیورز نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگر پیٹرول کی رقم بینک کارڈ سے کرنے کی پابندی کا نفاذ حتمی طور پر کیا جا رہا ہے تو ہم کس طرح پیٹرول بھر سکیں گے کیونکہ کمپنی کی جانب سے ہمیں ابھی تک اس بارے میں کسی قسم کی اطلاع فراہم کی گئی اور نہ ہی بینک کارڈ بنا کر دیا گیا ہے۔‘
اس ضمن میں ایک پاکستانی لیموزین ڈرائیور کا کہنا تھا کہ ’یہ ذمہ داری کمپنی کی ہے کہ وہ ہمیں بینک کارڈ مہیا کرے کیونکہ بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے کمپنی کی جانب سے این او سی لازمی ہے جس کے بغیر کوئی کارروائی ممکن نہیں ہو سکتی۔‘