عراق کے سابق صدر صدام حسین اور ان کے بیٹوں کی باقیات کہاں ہیں؟ اس کا جواب شاید ان 3افراد کے سوا کسی کو نہیں معلوم جنہوں نے ان کی میتیں داعش کے جنگجوئوں کی جانب سے بے حرمتی کے خدشے کے باعث کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دی تھیں۔ان 3میں سے ایک کا انتقال ہو گیا ہے ۔اب باقیات کا راز صرف 2افراد کے پاس ہے اور وہ زبان کھولنے کیلئے تیار نہیں ۔
العربیہ نیٹ کے مطابق جب 2014ء کے وسط میں دہشتگرد تنظیم داعش کے جنگجو عراق کے صلاح الدین صوبے میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے شہر کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ۔ ان کی جانب سے صدام حسین ، ان کے بیٹوں عدی و قصی اور خاندان کے دیگر افراد کی قبروں کی زیارت پر پابندی لگائی گئی تب صدام کے رشتے داروں اور قبیلے کے لوگوں کو یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ داعشی جنگجو کسی بھی وقت صدام حسین اور ان کی اولاد کے مقبرے کو دھماکے سے اڑا سکتے ہیں۔
روسی خبر رساں ایجنسی اسپوٹنک کو صدام حسین کے ایک خاندانی نے بتایا کہ داعشی ’العوجہ قریے‘ پر بھی قابض ہو گئے تھے ۔ یہ شمالی عراق میں صدام حسین کا وطن ہے ۔داعشی جنگجوئوں نے اس مسجد کے منتظمین کو تنگ کرنا شروع کر دیا تھاجس کے صحن میں صدام ، ان کے بیٹوں ، پوتے اور خاندان کے دیگر افراد دفن تھے۔
باخبر ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صدام حسین ، ان کے بیٹوں کی میتیں العوجہ قریے کے قبرستان سے نکال کر کسی نامعلوم مقام منتقل کر دی گئی تھیں۔داعش کے جنگجوئوں نے مقبرہ بند کر دیا تھا۔
اطلاع یہ ہے کہ جن 6افرا د کی میتیں منتقل کی گئی وہ صدام حسین ان کے بیٹوں عدی و قصی ، پوتے مصطفی ، نائب صدر طہ یاسین رمضان اور انقلابی عدالت کے سابق سربراہ عواد البندر کی تھیں ۔یہ سب العوجہ قریے میں صدام جامع مسجد کے ایک گوشے میں دفن تھے ۔یہ حصہ ایک ہزار مربع میٹر پر مشتمل تھا۔
میتوں کی منتقلی کا علم صدام حسین کے اہل خانہ میں سے کسی کونہیں ۔ ابتک بھی انہیں اس کا کوئی پتہ نہیں جو 2راز دار زندہ بچے ہیں وہ اپنی زندگی کو دائو پر لگانے کیلئے تیار نہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے زبان کھولی تو ہماری زندگی خطرے میں پڑ جائے گی ۔