قبائلی علاقوں میں ہونے والے انتخابات خواتین کے لیے کتنے اہم؟
قبائلی علاقوں میں ہونے والے انتخابات خواتین کے لیے کتنے اہم؟
جمعہ 19 جولائی 2019 16:54
رابعہ اکرم خان۔ اردو نیوز، ضلع خیبر
ناہید آفریدی پی کے 106 خیبر ٹو کے حلقے سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ تصویر بشکریہ ناہید آفریدی
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع خیبر کے پہاڑی گاؤں علی مسجد کے اطراف واقع پہاڑوں پر کالے بادل بسیرا کر چکے ہیں اور ٹھنڈی ہوا نے ماحول کو انتہائی خوشگوار بنا دیا ہے۔
گاؤں کے ایک بڑے سے گھر کے صحن میں کچھ خواتین کھلے آسمان تلے چارپائیاں رکھ کربیٹھی ہیں اور آپس میں گفتگو کر رہی ہیں۔
ان کی اس گفتگو میں انہیں روز مرہ پیش آنے والے مسائل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جن میں بنیادی صحت کے مراکز میں سہولیات کی کمی، بچوں کے لیے سکولوں کی عدم موجودگی، پانی کے ٹیوب ویل نہ ہونے، گاؤں کے پتھریلے اور کچے راستوں کو پکا کرنے اور خاندان کے مردوں کے لیے مقامی سطح پر روزگار کی فراہمی شامل ہیں۔
یہ سارے مسائل وہ ایک خاتون کو بتا رہی ہیں جو نہ صرف ان کو غور سے سن رہی ہیں بلکہ ان کے حل کرنے کی بار بار یقین دہانی کرا رہی ہیں۔
یہ خاتون ناہید آفریدی ہیں جو اس علاقے میں سنیچر کو پہلی مرتبہ ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں جنرل نشست پرعوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی امیدوار ہیں۔
گذشتہ برس صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد قبائلی اضلاع میں ہونے والےصوبائی اسمبلی کےانتخابات میں خواتین بھی حصہ لے رہی ہیں۔
ناہید آفریدی کے سامنے بڑی عمر کی خواتین اپنے مسائل کھل کر بیان کررہی ہیں جبکہ نوجوان خواتین جھجک رہی ہیں۔
ان کے بتائے ہوئے چند گھمبیر مسائل میں سے ایک بہت ساری خواتین کے شوہروں کا ان کے ساتھ نہ رہنا ہے کیونکہ وہ روزگار کے لیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور وہ ناہید آفریدی سے ان کے لیے اپنے علاقے میں روزگار فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ ان کے لیے یہ ہے کہ عوامی نمائندے ووٹ لینے کے بعد ان کے مسائل بھول جاتے ہیں اورانتخابات کے بعد ان سے ملتے تک نہیں۔
ناہید آفریدی ان کو یقین دلارہی ہیں کہ وہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی طرح ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گی اور اگر وہ منتخب ہوتی ہیں تو صوبائی اسمبلی میں ان کے لیے اپنی آواز بلند کریں گی۔
ناہید آفریدی لنڈی کوتل کے علاقے تیراہ میں تورہ ولہ کی رہنے والی ہیں، اور وہ پی کے 106 خیبر ٹو کے حلقے جو جمرود، علی مسجد اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے، سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کے ترجمان کے مطابق جنرل سیٹوں پر دو خواتین جبکہ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے آٹھ خواتین کو مخصوص نشستوں کے لیے نامزد کیا گیا ہے جس میں لنڈی کوتل سے ایک مسیحی امیدوار بھی ہیں۔
ان انتخابات کے لیے مرد امیدواروں جگہ جگہ جلسے کرتے نظر آئے اور مقامی افراد بھی ان کے لیے مہم چلارہے ہیں تاہم ناہید آفریدی کی ایک ریلی کے علاوہ خواتین کے جلسے نظر نہیں آئے۔
ہر جگہ مرد امیدواروں کے پوسٹرز اور انتخابی نشان لگے ہوئے ہیں، جبکہ ناہید آفریدی کی تصویر والے چند پوسٹرز آپ کو نظر آئیں گے جس کو دیکھ کر مقامی لوگ چونک جاتے ہیں اور پھر خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔
چالیس برس کی ناہید آفریدی کہتی ہیں ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ بھی مردوں کی طرح مہم چلاتیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی مہم جمرود اور علی مسجد کے پہاڑی راستوں میں خود گھر گھر جا کر کی۔
’عورتوں کو سیاست میں لانا ہماری جیت ہے‘
ناہید آفریدی کا کہنا ہے کہ جتنا پہاڑوں کے پتھریلے راستوں میں چلنے کا سفر کٹھن ہے، مقامی لوگوں کو سمجھانا بھی ان کے لیے اتنا ہی مشکل ہے۔
وہ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں ’خیبر ایجنسی میں مہم چلانا مشکل ہے، لوگوں نے اعتراض بھی کیا۔ اگر قبائلی علاقے ضم نہ ہوتے تو خواتین بھی نہ نکلتیں، لوگوں نے برا بھلا کہا لیکن اس کی پرواہ کیے بغیر میں نے مہم چلائی، میں حجروں میں بھی گئی، مدرسوں میں بھی اور گھر گھر گئی، سیاسی مہم چلانا میرا آئینی حق ہے‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے لوگوں نے ان کا خیال رکھا اور مہم میں ان کا ساتھ دیا۔
ان کے مطابق، ’میں مردوں کی طرح آزادی سے مہم نہ چلا سکی، لیکن ہم نے جمود کو توڑا ہے، میں نے پوسٹر پر اپنی تصویر لگائی جو بازاروں میں لگی ہے، پدر شاہی معاشرے کو چیلنج کیا۔ کوئی بھی پارٹی یہاں سے جیتے لیکن ہم تبدیلی لائے ہیں۔ ہم قبائلی عورت کو سیاست میں لے کر آئے اور یہی ہماری جیت ہے۔‘
سابقہ فاٹا میں 2013 اور 2017 کے عام انتخابات میں بھی کئی خواتین نے حصہ لیا تھا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں بھی زیادہ تعداد میں خواتین جنرل نشستوں پر انتخابات ہار گئی تھیں۔ سیاسی پارٹیوں نے خواتین کو ایسی نشستوں پرٹکٹ الاٹ کی تھی جن پر ان کے جیتنے کے امکانات کم تھے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن کہتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں خواتین کا جنرل نشتوں پر الیکشن لڑنا خوش آئند ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ جہاں خواتین سوال نہیں کر سکتیں اور مردوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں، وہ ووٹ مانگنے کے لیے نکلی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن صائمہ منیر کہتی ہیں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 2017 کے الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کو پابند کیا گیا تھا کہ انتخابات کے لیے خواتین کو پانچ فیصد ٹکٹس لازمی دیے جائیں گے لیکن یہ ٹکٹس وہاں دیئے جاتے ہیں جہاں ان کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق خواتین کے سامنے آنے سے قبائلی اضلاع کی خواتین کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
خیبر ضلع کے علاقے علی مسجد کے پرپیچ پہاڑی علاقوں میں ناہید آفریدی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی اضلاع کے انتخابات میں حصہ لینا اب بھی ایک مشکل فیصلہ ہے۔
وہ پر عزم ہیں کہ وہ انتخابات جیتیں نہ جیتیں، یہاں کے عوام کا اعتماد ضرور جیت لیں گی۔