دنیا بھر میں ویڈیو کی آن لائن ویب سائٹ یوٹیوب انتہائی مقبول ہے اور ایسے افراد بھی ہیں جن کے اس سائٹ پر بنائے گئے چینلز کے لاکھوں صارفین اور کروڑوں ناظرین ہیں۔
یوٹیوب کی ویڈیوز جہاں ایک طرف بنانے والے کو دنیا بھر میں مشہور کر سکتی ہیں وہیں زیادہ دیکھے جانے پر ان ویڈیوز سے پیسے بھی کمائے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں ہزاروں افراد نے یوٹیوب پر اپنے چینلز بنا رکھے ہیں جن پر وہ اپنی بنائی گئی ویڈیوز اپلوڈ کر کے صارفین سے شیئر کرتے ہیں تاہم اب ان میں جانے مانے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا بھی اضافہ ہوا ہے۔
اردو نیوز نے پاکستان کے معروف تجزیہ کاروں اور صحافیوں کے یوٹیوب چینلز کا جائزہ لینے کے بعد تین اہم ٹی وی اینکرز سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کو یوٹیوب چینل بنانے کا خیال کیوں آیا اور کیا یوٹیوب پر صحافت کی جا سکتی ہے اور کیا روایتی میڈیا چھوڑ کر یوٹیوب صحافت سے کمائی کر کے گھر چلایا جا سکتا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار اور اینکر طلعت حسین نے ان سوالوں کے جواب میں بتایا کہ یوٹیوب چینل بنانے کی ایک وجہ تو ’پاکستان کا مین سٹریم میڈیا ہے جس کو اب ہم نام نہاد مین سٹریم میڈیا ہی کہیں گے کیونکہ وہاں اب آزاد صحافت کا سکوپ بہت کم رہ گیا ہے۔‘
یوٹیوب پر طلعت حسین کے چینل کے اس وقت تقریباً 50 ہزار سسبکرائبرز ہیں۔
طلعت حسین نے بتایا کہ 2018کے الیکشن کے دوران ٹی وی پر ان کے ہر پروگرام کو سنسر کیا جاتا تھا۔ ’تب سوچا کہ اگر سنسر ہی ہونا ہے تو صحافت چھوڑ دیں یا پھر کوئی اور پلیٹ فارم استعمال کریں۔ یوٹیوب چینل بنانے کا مقصد یہ ہے کہ متوازن، باوقار اور صحیح صحافت کر پائیں۔‘
سینئیر صحافی اور اینکر مطیع اللہ جان نے اردو نیوز کے سوالوں پر جواب میں بتایا کہ یو ٹیوب چینل بنانے کی چار وجوہات تھی۔
’ایک یہ کہ اپنی آواز اور حقائق لوگوں تک کسی نہ کسی طرح بلا روک ٹوک پہنچاتا رہوں- دوسرا یہ کہ سوشل میڈیا تیزی سے روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور موثر بھی ہے- تیسرا یہ کہ آپ جتنی جلدی سوشل میڈیا پر آتے ہیں کچھ عرصے بعد کچھ سرمایے اور محنت کے ساتھ آپ کسی وقت بھی کم وقت میں باقاعدہ بنیادوں پر ایک نیوز کا ادارہ بنا سکتے ہیں۔‘
یوٹیوب پر مطیع اللہ جان کےچینل کے 25 ہزار سبسکرائبرز ہیں۔
مطیع اللہ جان کے مطابق ’اپنی صحافتی شناخت برقرار رکھنے کے لیے یو ٹیوب چینل ایک سہارا ہے۔‘
تجزیہ کار طلعت حسین نے کہا کہ یوٹیوب کے ذریعے صحافت کی جا سکتی ہے ’اور اگر آپ صحافت کرنا چاہتے ہیں اور پر اثر صحافت کرنا چاہتے ہیں تو بالکل کی جا سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نئے دور کی صحافت یوٹیوب اور ڈیجیٹل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ہو سکتی ہے۔ ’ایسے لوگ جو ٹی وی نہیں دیکھتے یا اس سے متنفر ہو گئے ہیں وہ یوٹیوب پر آپ کو دیکھتے ہیں۔ نوجوان آپ کو دیکھتے ہیں۔‘
مطیع اللہ جان کی رائے ہے کہ ’یو ٹیوب محض ایک ذریعہ ہے باقی اس پر بالکل ایسے ہی صحافت کی جا سکتی ہے جیسے روایتی میڈیا پر- تاہم اس کا بزنس ماڈل صحافیوں کو بھی کسی حد تک میڈیا مالکان کی طرح سوچنے پر مجبور کرتا ہے-‘
زیادہ فالوورز، ویوز اور لائکس کے لیے طاقتور حلقوں کی محتاجی غیر صحافتی ایجنڈا کو فروغ دیتی ہے-
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ یو ٹیوب کے صحافیوں کو اداراتی سپورٹ یا تحفظ بھی حاصل نہیں ماسوائے ان صحافیوں کے جو روایتی میڈیا میں بھی نوکری کر رہے ہیں- ’اپنی نوکری بچانے کی خاطر اپنے یو ٹیوب چینل پر بھی بہت سے صحافی پورا سچ نہیں بول پاتے۔‘