اپنی ذات سے پکا اور سچا وعدہ کیا تھا کہ کسی قسم کی تمہید نہیں باندھنی۔ کسی قسم کے وارم اپ کی ضرورت نہیں ہے۔ سب کو معلوم ہی ہے کہ ہمارا لکھا ہوا معاشرتی معیاروں پر تو پورا کبھی نہیں اترا۔
الفاظ کی اسی تلخی اور ان کی اسی بے لباسی کی وجہ سے ہم کبھی بھی کسی تمغے کے مستحق قرار نہیں پائیں گے جو عوام کے اخلاق کو سنوارنے والوں کا ہی استحقاق ہے۔ ہاں، لیکن ایک بات طے ہے کہ ہمیشہ جس بھی کہا خدا لگتی کہا۔ کسی کے معیار یا ڈراوے میں آئے بغیر جو دل نے سچا کہا اسی کو قلم پر دھرا۔
دیکھ لیجیے۔ چور چوری سے گیا ہیرا پھیری سے نہ گیا۔ ہم نہ نہ کرتے بھی تمہید کا بند باندھ ہی بیٹھے۔ آپ کا بڑا پن ہے جو ہمیں برداشت بھی کرتے ہیں اور دبے لفظوں میں سراہ بھی دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا سے لاکھ نفرت کی جائے، اسے لاکھ اسلامی روایات کے منافی سمجھا جائے لیکن ایک بات تو مسلمہ حقیقت ہے کہ اسی سوشل میڈیا کا اعجاز ہے کہ ہم تک وہ بھی پہنچ جاتا ہے جسے سات پردوں میں چھپایا جاتا تھا۔
کل ہی ایک کسی کی ٹویٹس کا سلسلہ دیکھا جس میں انہوں نے اپنی خالہ کی علیحدگی کا ذکر کیا تھا۔ آج سے چند سال پہلے بھی دیکھا جاتا تو شاید کبھی کوئی ایسی بات سرعام نہ کرتا۔ ان صاحب کی ادھیڑ عمر خالہ کو ان کے شوہر نامدار نے نہ صرف شادی کے 35 برس بعد چھوڑ دیا تھا بلکہ مختلف بہانوں سے ان کی جمع پونجی بھی ہتھیا لی تھی۔ اب خالہ بے سروسامانی بہن کے در پر پڑی تھیں۔
کچھ ہی دن پہلے معروف گلوکار محسن عباس حیدر کی اہلیہ فاطمہ کے بیانات بھی نظر سے گزرے جس میں انہوں نے اپنے خاوند پر مار پیٹ کا الزام دائر کیا۔ ثبوت کے طور پر خاتون نے اپنی زخمی تصاویر بھی پوسٹ کیں۔ جیسا کہ یہ معاشرہ بغیر خون بہانے کسی کی بات تو سنتا نہیں فاطمہ بھی تصویریں پوسٹ نہ کرتیں تو کیا کرتیں۔
انہوں نے اپنے خاوند کے خلاف ایف آئی آر بھی دائر کی اور علیحدگی کی درخواست بھی عدالت میں جمع کرا دی۔ بقول ان کے اب انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں کہ بچے کو کیسے پالیں گی۔ بعد میں پتہ چلا کہ شادی کے وقت ہی فاطمہ کو کام کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔
اپنی ایک دور پار کی رشتے دار یاد آ گئیں جن پر ہر قسم کے مظالم کیے گئے۔ لیکن وہ وفا کا پیکر بھی رہیں اور سسرال کی چوکھٹ نہ چھوڑی کہ کہاں جاتیں۔ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالتیں؟ اسی تنخواہ پر صبر شکر سے آنسو پیتی رہیں۔ زندگی کا کیا ہے گزر ہی جاتی ہے۔
اپنی ایک سہیلی کا ذکر بھی کرتے چلیں جس کی کم عمری میں ہی شادی ہو گئی تھی۔ اس قدر کمسن تھی کہ ازدواجی معاملات کو بھی صحیح طرح سے نہ سمجھتی تھی۔ شادی کے پانچ سال بعد زبان کھولی تو معلوم ہوا کہ میاں اپنی کمزوری کی محرومی اسے مار پیٹ کر نکالتا تھا۔ خیر، اس لڑکی کے ماں باپ نے اس کی ہمت بندھائی۔ آج ڈاکٹر ہے اور چار بیٹوں سے بڑھ کر گھر والوں کا خیال رکھ رہی ہے۔
ایسی اور بھی کئی لڑکیوں کو جانتے ہیں جو تعلیم یافتہ تھیں۔ شادی کے بعد نبھاہ کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن ناجائز ظلم تمام عمر سہنے سے انکار کیا۔ ان کے گھر والوں نے ان کا ساتھ دیا۔ آج وہی لڑکیاں نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑی ہیں بلکہ اپنے ماں باپ کا مضبوط بازو بن چکی ہیں۔ اپنی طلاق کو زندگی کا ایک حصہ سمجھتی ہیں، کلنک کا داغ نہیں۔
اپنے بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ معاشرہ انحطاط کا شکار ہے۔ اخلاقی زوال آ چکا ہے۔ مغرب بے راہ روی کا شکار ہے۔ اب یہ ہوا ہماری طرف بھی آ رہی ہے۔ خاندانی نظام بکھرتا جا رہا ہے۔ معاشرے میں بے حیائی فروغ پا چکی ہے۔ گھر بنانا عورت کی ذمہ داری ہے۔ طلاق کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ قیامت کی نشانیاں نظر آ رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
مزید پڑھیں
-
دیکھتے ہیں اس بازی کا سکندر کون ہے؟Node ID: 426341
-
ایوانکا پاکستانی خواتین کو بااختیار بنانے کی خواہش مندNode ID: 427231