چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے بہت سے لوگوں کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ وہ وقت آگیا ہے جب راج کرے گی خلق خدا اور تاج وغیرہ اچھالے جائیں گے۔
جب 64 ممبران نے کھڑے ہو کر اس عدم اعتماد کی تحریک کا خیر مقدم کیا تو بہت سے دیکھنے والوں کی خوشی دیدنی تھی۔
سب سمجھ رہے تھے کہ اب جمہوریت کا وار کارگر ہو گا۔ اب پیپلز پارٹی اپنی تاریخی غلطی کا ازالہ کرے گی۔ اب ممبران کی مویشیوں کی طرح خریداری کا وقت بیت گیا۔ اب ووٹ کو عزت ملے گی۔ اب سول سپریمسی کی بات ہو گی۔
لیکن ہوا یہ کہ 64 ممبران جو کھڑے ہوئے تھے ان میں سے 14 لیٹ گئے۔ ایسا نتیجہ آیا کہ سب تجزیہ کار ہکا بکا رہ گئے۔ ہر تجزیہ غلط اور ہر اندازہ نادرست ثابت ہوا۔ سنجرانی پھر مسند اقتدار پر جم گئے۔ جمہوریت کے نعرے لگانے والوں کے گلے میں پھندا لگ گیا۔ خلق خدا کے راج کرنے کے متمنی لوگوں کی آوازیں بیٹھ گئیں۔ تخت اچھالے جانے کے خواب دیکھنے والوں کو چپ لگ گئی۔ یہ جو ہوا یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ ہاں البتہ جو ہونے والا تھا وہ پہلی دفعہ ہونے والا تھا۔
جس نظام میں 70 برس تک جمہوریت اور جمہوری سوچ نہیں پنپ سکی وہاں اتنا بڑا واقعہ ہونا آسان نہیں تھا۔ سب کو پتہ تھا کہ چیئرمین سینیٹ کی برخواستگی دراصل کس کے لیے پیام ہے۔
لیکن اس پیام کے لیے سیاسی جماعتوں کو ابھی اور محنت کرنا پڑے گی۔ سیاہ بھیڑیں جمہوریت کی چیمپیئن دونوں جماعتوں میں ہیں۔ کہیں یہ قیادت کی سطح پر بولی لگواتی ہیں اور کہیں پارٹی کے ممبر خود اپنی قیمت طے کروا رہے ہوتے ہیں۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے افعال کو درست نہیں کریں گیں، درست لوگوں کو ایوانوں میں نہیں بھیجے گی تب تک معاملات کا رنگ یہی رہے گا۔ غیر جمہوری قوتیں سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتی رہیں گی اور یہ کھیل اقتدار کی کرسیوں کا کھیل ہی رہے گا عوام اس کا حصہ کبھی نہیں بن سکیں گے۔
مزید پڑھیں
-
بلاول بھٹو اور مریم نواز کا میثاق جمہوریت: عمار مسعود کا کالمNode ID: 420906
-
عمار مسعود کے اس کالم کو پڑھنا منع ہےNode ID: 423921
-
عمار مسعود کا کالم: اصل چیز ہوتی ہے شخصیتNode ID: 425126