Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول بھٹو اور مریم نواز کا میثاق جمہوریت: عمار مسعود کا کالم

بلاول بھٹو زرداری کی دعوت پرہونے والےافطار ڈنر میں حکومت کے خلاف بڑھتی مہنگائی اور معاشی بحران پر تحریک چلانے پر غور کیا گیا
بلاول بھٹو کی جانب سے افطار ڈنر کے موقع  پر تمام اپوزیشن  جماعتوں کے ساتھ ہم آواز ہو کر مریم نواز اور بلاول بھٹو نے بھی میثاق جمہوریت کا اعادہ کیا۔  جس وقت اس عہد جمہوریت کی تجدید کی گئی اس وقت تک یہ دونوں سیاسی شخصیات اپنا بہت کچھ گنوا چکی ہیں۔
بلاول بھٹو کے نانا سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو  ایک ایسے مقدمے میں پھانسی دے دی گئی کہ جس کے بعد اس سزا کے دینے والے منصفین نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور دبے لفظوں میں کہا کہ ’ہم سے غلطی ہو گئی تھی‘۔ بلاول کے والد سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اس جرم جمہوریت میں قریباً دس سال سے زیادہ جیل کاٹ چکے ہیں۔
اتنا عرصہ پابند سلا سل رہنے کے باوجود ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ بلاول کی والدہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک دھماکے میں قتل کر دیا گیا۔ نہ آج تک ان کا کوئی قاتل گرفتار ہوا نہ اس جرم میں کسی کو سزا ملی۔


ایک نئی نسل نے ایک نئےحوصلے سے میثاق جمہوریت کا اعادہ کیا ہے۔ ایک نئی فصل پک کر تیار ہوئی ہے

مریم نواز کی داستان الم  بھی بہت تکلیف دہ ہے۔ ان کے والد نواز شریف کو ایک ڈکٹٹرر نے نہ صرف حکومت سے بے بنیاد برطرف کیا بلکہ ان کو وطن بدری پر مجبور کیا۔ دس سال وطن سے دوری کاٹی ، کاروبار تباہ گیا، پارٹی کا شیرازہ بکھرتے دیکھا۔ نواز شریف پھر حکومت میں آئے تو پھر پاناما کا فساد بپا کیا گیا۔ ایک متنازع فیصلے کے نتیجے میں تین دفعہ کے وزیر اعظم کو جیل کی کال کوٹھڑی میں دھکیل دیا گیا۔
مریم نواز بھی اس گرفتاری میں ان کے ہمراہ رہیں۔ اس قید میں مریم نے اپنی والدہ کو گنوا دیا جن کو وہ بستر مرگ پر لندن چھوڑ کر آئی تھیں۔ جیل کی سختیوں کا یہ عالم تھا کہ سارے ہفتے میں فون پر صرف بیس منٹ بات کرنے کی اجازت تھی۔  بیمار ماں بستر مرگ پر پکارتی رہی کہ آخری سانسوں میں کوئی بیٹی سے بات کروا دو، مگر داروغہ جیل مریم نواز کو اس ایک کال کی اجازت نہیں دے سکا۔ کسی نے دم توڑتی کلثوم نواز کو یہ بتانے کی جرات نہیں کی کہ بائو جی اور ان کی بیٹی اس وقت قید میں ہیں۔ اب ان کا انتظار نہ کریں۔
اب ان دو مضروب خاندانوں کی ایک نئی نسل نے ایک نئےحوصلے سے میثاق جمہوریت کا اعادہ کیا ہے۔ ایک نئی فصل پک کر تیار ہوئی ہے ۔ ایک نئے جذبے سے جمہوریت کی خاطر سر کٹانے کا عہد کیا ہے۔


بلاول کی جانب سے مریم کو افطار کی دعوت دینے اور ملاقات کو خاصا اہم سمجھا جا رہا ہے

ماضی میں جو میثاق جمہوریت نواز شریف اور محترمہ بے نظیر کے درمیان ہوا تھا وہ اس بات پر مبنی تھا کہ اپنی سیاسی ساکھ قائم رکھتے ہوئے جمہوریت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ کسی غیر جمہوری قوت سے ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ ووٹ کی حرمت کو یقینی بنائیں گے۔ سول سپرمیسی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے جہاں موقع ملا اس حلف سے بے وفائی کی۔ کوئی ایک آمر مشرف سے ساز باز کرتا رہا ، کسی نے پنجاب میں گورنر راج لگا دیا ، کوئی کالا کوٹ پہن کر اس عہد جمہوریت کو پائوں تلے روندنے عدالت کو روانہ ہوا، اور کسی نے آصف زرادری کی پہاڑوں سے ٹکرانے والی تقریر کے بعد ان کو ملاقات کا وقت دینا بھی گورا نہیں کیا۔  
ہوس اقتدار ہمیشہ اس میثاق پر عمل داری کی راہ میں حائل رہی۔ کبھی ایک نے دوسرے کا گریبان پکڑا اور کبھی دوسرے نے ٹانگ اچک لی۔ کبھی ایک نے دوسرے کے خلاف کرپشن کی فائلیں کھلوا دیں اور کبھی دوسرے نے جعلی مقدمات بنوا دیے۔  کبھی کوئی کسی کا پیٹ چاک کر کے چوک میں پھانسی دینے کے نعرے لگاتا رہا اور کبھی دوسرا ’مودی کے یار‘ کا نعرہ لگاتا رہا۔ بار بار کی اس تنسیخ عہد پرمقبول عامر کا یہ شعر صادق آتا ہے  کہ
مرے خلاف گواہی میں‌ پیش پیش رہا
وہ شخص جس نے مجھے جرم پر ابھارا تھا


اپوزیشن رہنماؤں نے اعلان کیا تھا کہ عید کے بعد اے پی سی بلا کر حکومت مخالف احتجاج کی سٹریٹجی طے کریں گے

اب جو میثاق جمہوریت کی باگ ان دو بڑے سیاسی خانوادوں کی نوجوان نسل نے سنبھالی ہے تو یہ دو قائدین وہ ہیں جنہوں نے اس ملک کی سیاست میں بہت خمیازہ بھگتا ہے۔ بہت خون دیکھا ہے بہت صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ اب مریم نواز اور بلاول بھٹو پر منحصر ہے کہ وہ چاہیں تو جمہوریت کے عزم پر سختی سے کاربند رہیں یا پھر ماضی کی غلطیوں کو دوہرائیں۔ ہمیں بہتر ’کل‘ کی امید رکھنی چاہِے ، ہمیں جمہوریت پر اعتماد قائم رکھنا چاہیے، اور توقع رکھنی چاہیے کہ یہ نئے زمانے کے لوگ بہتر قوت فیصلہ رکھتے ہیں، اس ملک کے عوام کے بارے میں بہتر سوچتے ہیں اور کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک سوال تاریخ سے بھی کرنا چاہیے کہ ان دونوں کی قیادت میں کیا تاریخ ہمیں جمہوریت کا روشن ستارہ دکھائے گی یا پھر اپنے ہاں خون آشام مناظر والی فلم دوہرائی جائے گی؟

شیئر: