’ہم نے غم اور درد کو کمزوری کے بجائے اپنی طاقت بنا لیا‘
’ہم نے غم اور درد کو کمزوری کے بجائے اپنی طاقت بنا لیا‘
جمعرات 8 اگست 2019 13:02
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
آٹھ اگست 2016 کو پاکستان کے شہر کوئٹہ میں ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعے وکلا پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 56 وکلا ہلاک اور90 وکلا سمیت 100سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ آج اس سانحہ کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے۔
واقعہ کے متاثرین اور اس میں اپنے پیاروں کو کھونے والوں کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سانحہ کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب انہیں انصاف نہیں ملا۔
آٹھ اگست2016 کی صبح کوئٹہ میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر ملک بلاول انور کاسی ایڈووکیٹ کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا جب ان کی لاش سول ہسپتال کوئٹہ لائی گئی اور وکلا کی بڑی تعداد پہنچی تو پہلے سے موجود ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل رہنما سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ یہ پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ کا بد ترین واقعہ تھا۔ دنیا میں کہیں بھی وکلا پر اتنا بڑا حملہ نہیں ہوا۔ اس ایک دھماکے میں ہمارے 56 وکلا شہید اور93 زخمی ہوئے۔
’اس دھماکے میں وکلاکی ایک نسل کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا۔ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے تین سابق صدور، ایک بیرسٹر، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے سینئر وکلا کی موت سے پیدا ہونے والے خلا کو آج بھی صوبے میں ہر سطح پر محسوس کیا جارہا ہے۔‘
وکیل رہنما، بلوچستان بار کونسل اور سپریم جوڈیشل کمیشن کے رکن منیر احمد کاکڑ ایڈووکیٹ کے مطابق آٹھ اگست کے سانحہ کے نتائج ہر حوالے سے بہت خطرناک ہیں۔ اس کے کثیر الجہتی اثرات پچاس سال بعد بھی ختم نہیں ہوں گے۔ اس واقعہ سے صرف وکلا اور ان کے خاندان ہی متاثر نہیں ہوئے، ججز اور عدلیہ بھی متاثر ہوئی۔ آج صوبے کے عوام اور سائلین اچھے وکلا سے محروم ہیں جو انہیں عدالت کے ذریعے حقوق دلاتے تھے، جو کسی بھی ظلم کے خلاف اور صوبے کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے تھے۔
'پچیس پچیس تیس تیس سال کی وکالت کا تجربہ رکھنے والے سینئر وکلا میں سے ہر ایک اپنی ذات میں ایک ادارہ تھا۔ ان کے ساتھ پندرہ سے بیس جونیئر وکلا کام کرتے تھے وہ ان کے تجربے سے سیکھ رہے تھے۔ وہ سب محروم ہوگئے۔'
دھماکے میں نشانہ بننے والے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر باز محمد کاکڑ کی بہن سارہ کاکڑ کہتی ہیں کہ وہ اپنے بھائی کے بچھڑنے کا دکھ آج بھی پہلے دن کی طرح ہی محسوس کرتی ہیں۔
’آج بھی کوئی ہمارے بھائی کا ذکر چھیڑے تو ہمارا زخم تازہ ہوجاتا ہے۔ مگر ہم نے اس غم اور درد کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے اپنی طاقت بنالیا ہے'۔
سارہ کاکڑ کے مطابق جب باز محمد زندہ تھے تو ہم نے گھر میں صرف ایک بھائی کے طور پر دیکھا تھا ۔ ان کے مرنے کے بعد ہمیں لوگوں کے ردعمل سے پتہ چلا کہ بھائی کتنے بہادر شخص اور رہنما تھے، وہ اس صوبے کے مظلوم لوگوں کی آواز تھے۔ ’ہم ان کے مشن کو ادھورا نہیں چھوڑیں گے ۔'
باز محمد کاکڑ کے بڑے بھائی پروفیسر سرجن ڈاکٹر لعل محمد کاکڑ نے کہا کہ انہوں نے اس سانحہ کے بعد مایوسی پھیلانے کی بجائے ایک نیا راستہ اپنایا اور بھائی کے نام سے ایک فاﺅنڈیشن قائم کرلی ہے۔
ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس فاﺅنڈیشن کے ذریعے صوبے کے دور دراز علاقوں میں علم و آگاہی کی روشنی پھیلائے۔ آج ہمیں جن تمام مسائل کا سامنا ہے اس کی وجہ تعلیمی پسماندگی ہی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے جہالت کا خاتمہ کرکے علم کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
دھماکے میں نشانہ بننے والے وکلا میں سے کئی کا تعلق صوبے کے اہم سیاسی خانوادوں سے تھا۔ سنگت جمالدینی ایڈووکیٹ بلوچستان نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری سینیٹر جہانزیب جمالدینی کے بیٹے، عسکر خان اچکزئی ایڈووکیٹ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر رکن بلوچستان اسمبلی اصغر خان اچکزئی کے چھوٹے بھائی اور محمد داﺅد کاسی ایڈووکیٹ سابق وفاقی وزیر عبدالمالک کاسی کے بیٹے تھے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی سمیت دھماکے میں نشانہ بننے والے ہر وکیل کا گناہ یہ تھا کہ وہ صرف وکیل ہی نہیں تھے بلکہ صوبے کے لوگوں کی آواز تھے وہ ہر ظلم کے خلاف کھڑے ہوتے تھے ۔
’ان میں 95 فیصد وکلا کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا جو اپنے بل بوتے پراس مقام تک پہنچے تھے۔ ظالموں نے صرف ان گھرانوں سے ہی سب کچھ نہیں چھینا بلکہ اس صوبے کو بھی بہت پیچھے دھکیل دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بات سوچنی چاہیے کہ کیا دہشتگردی ہم پر مسلط کی گئی یا ملک کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔
’نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہوتا تو کسی کی جان نہ جاتی۔ ہمیں اپنے رویوں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہوگی اورحقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ ہمیں اپنے لوگوں کو تباہ و برباد ہوتے دیکھ کر خاموش نہیں رہنا ہوگا۔'
دھماکے میں اپنے بیٹے ایمل خان وطن دوست ایڈووکیٹ کو کھونے والے والد تاج محمد وطن دوست کہتے ہیں کہ تین سال گزرنے کے باوجود بھی ہمیں انصاف نہیں ملا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 8اگست کے واقعہ کی تحقیقات کیلئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل یک رکنی کمیشن نے وجوہات اور ذمہ داران کا تعین کردیا۔ اس کے بعد حکومت کا فرض بنتا تھا کہ وہ ان وجوہات کا سدباب کرتی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرتی مگراس رپورٹ پر عمل ہوا اور نہ ہی حکومت کی جانب سے شہدا کے لواحقین کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے ہوئے۔
شہداکے بچوں کی تعلیم اور ملازمت کے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔'ہمیں انصاف اس وقت ملے گا جب کمیشن کی رپورٹ پر عمل ہوگا '
وکلا پر حملے کی وجوہات سے متعلق امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ اس سانحہ یا پھر پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے محرکات دیکھے جائیں تو وہ مقامی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہیں۔ ہماری فورسز اور عام شہریوں سمیت ہر طبقے کے لوگ نشانہ بنے۔
امان اللہ کنرانی کے مطابق سپریم کورٹ کے جج قاضی فائزعیسیٰ نے اپنی کمیشن رپورٹ میں بھی واقعہ کی وجوہات کا ذکر کیا ہے۔
’ہم سمجھتے ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس دائر ہونے کی وجہ بھی یہی کمیشن رپورٹ ہے کیونکہ انہوں نے واضح اور دو ٹوک انداز میں کمیشن کی رپورٹ مرتب کی۔‘
بلوچستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو باڈی کے چیئرمین راحب خان بلیدی نے اردو نیوز کو بتایا کہ بلوچستان حکومت نے سانحہ کے بعد صوبے کے 9نوجوان وکلاکو اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن بھیجا ہے۔ مزید پانچ نوجوانوں کو وکالت کی اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک بجھوایا جارہا ہے۔
اگرچہ وکلا اس بات پر مطمئن ہیں کہ سانحہ کے بعد متاثرہ وکلا کے خاندانوں کی مالی امداد کی گئی مگر ان کا سب سے بڑا مطالبہ اب بھی پورا نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سانحہ کی تحقیقات کیلئے بنائے گئے قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ پر عمل چاہتے ہیں کیونکہ اس کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کرکے ہی مستقبل میں ملک کو ایسے سانحات سے بچایا جاسکتا ہے۔