پچھلے کچھ عرصے سے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے تخلیقی مادہ جامد ہے یا شاید ایک ہی چیز نظر آتی ہے اپنے آس پاس۔ ٹوٹتے بِکھرتے بوسیدہ رشتے، سوشل میڈیا اور فیشن کے زیرِاثر، حسد سے جلتے، دولت کی دوڑ میں بھاگتے لوگ اور ڈرے ہوے چہرے۔
ڈر جس بھی رشتے میں گھستا ہے وہ اس رِشتے کو یوں کھوکھلا کر دیتا ہے کہ اس رِشتے میں اُپر سے تو سب شاندار نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن ظاہری تہہ کے نیچے صرف بربادیاں پنپ رہی ہوتی ہیں۔
آئے دن شادیوں کے نام پر دولت کو آگ لگائی جاتی ہے۔ لوگ اپنی زندگیاں داؤ پر لگا رہے ہیں۔ صرف اس سماج میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے نمودو نمائش کے دوڑ اور آگے رہنے کی دوڑ میں رشتے کہیں پیچھے چھوٹ گئے ہیں۔ سماج کے اقدار اتنے بدل گئے ہیں کہ نہ پہلے جیسے لوگ رہے اور نہ ہی حالات۔
پُرانے وقتوں میں شادی سے پہلے تصویروں سے ہی ملاقات ہوتی تھی یاں ایک آدھ بار پورے خاندان کے ساتھ ملاقات کی جاتی تھی اور یہ فیصلہ ہو جاتا تھا کہ یہ لڑکا یا فلاں لڑکی شادی کے لیے موزوں ہے۔ گورا رنگ، اُونچی قامت، ہلکا یا بھاری جسم دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا جاتا کہ اس لڑکی یا لڑکے کے ساتھ پوری زندگی گزار لیں گے لیکن اب تو صرف جائیداد دیکھ کر شادی کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
زندگی مرنے اور سماج جینے نہیں دیتاNode ID: 422796
-
عائشہ جہانزیب کا کالم: کتنے مسائل کا شکار ہے آج کا مردNode ID: 425701
-
عائشہ جہانزیب کا کالم: مصیبتوں سے لڑنا زندگی ہے!Node ID: 426526
-
تین بول: طلاق، طلاق، طلاقNode ID: 427906