مرد بیچارہ کولہو کے بیل کی طرح صبح سے شام تک پِستا رہتا ہے۔ گھر اور باہر کے معاملات اکیلا دیکھتا ہے۔ اُس کا کام پیسے کمانا ہے، اپنے گھر کے اندر خواتین کی مسلسل جھڑپوں کو سُلجھانا ہے۔
وہ گھر داخل ہو ہی جائے تو ایک عورت سر باندھ کر اور دوسری منہ پھلا کر بیٹھی نظر آتی ہے۔ تمام تر کوششوں کے بعد بھی یہ شخص کسی کو خوش نہیں کر پاتا۔ یہ چیزاِس مرد کے اندر ایک اِحساس پیدا کرتی ہے، ٹھکرائے جانے اور نہ سراہے جانے کا۔
ہر مرد دراصل اندر سے ایک بچے کی مانند ہوتا ہے، اُسے کبھی بہلا کر تو کبھی پُھسلا کر اپنا کام یا اپنی بات سمجھانی پڑتی ہے۔ روٹھ جائے تو بچوں کی طرح منانا بھی پڑتا ہے۔
مرد کو دراصل سمجھنا بہت آسان ہے۔ اگر آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ مرد کو سمجھ ہی نہیں سکتے تو زندگی اور رِشتہ ازدواج آسان ہو جائے گا۔ ہم میں سے کئی عورتیں ہر وقتاِس جُستجو میں لگی رہتی ہیں کہ یہ جان جائیں کہ ہمارا محبوب آخر چاہتا کیا ہے۔
کُچھ بہت ہی بےوقوف عورتیں ہروقت اپنے بیل (مرد) کے موبائل میں منہ دیے رکھتی ہیں اور جب اُن کے ہاتھ اپنے مرد کی کوئی اِیسی کمزوری لگ جاتی ہے جس پر وہ اُنھیں بار بار ذلیل کر سکیں، عورتیں یہ کام شروع کر دیتی ہیں۔ اُن کو لگتا ہے کہ وہ مرد پر اِسی بہانے حاوی ہو جائیں گی، یا اُن کا پول کھولنے کی دھمکیاں دیں گی تو پھر یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ وہ اس طرح مرد کو دبا سکتی ہیں۔
وہ اُٹھتے بیٹھتے طعن و تشنیع شروع کر دیتی ہیں۔ اولاد اور رشتے داروں کے سامنے نِیچا دِکھانے لگتی ہیں، وغیرہ وغیرہ، یہ عورتوں کے کُچھ ہتھکنڈے ہیں۔ عورت مرد کی برابری میں کہیں یہ بھول جاتی ہے کہ فطرت نے دونوں کو الگ اور مُنفرد بنایا ہے۔ لہٰذا یہ تقابلی جائزہ بنتا تو ہے ہی نہیں۔ عورت مرد سے کہیں اوپر ہے کیوں کہ عورت زندگی کو پیدا کرتی ہے اور وہ مرد سے بہرحال مختلف ہے۔
مرد صدیوں سے اپنی پگڑی، اور اپنے شملے کو اُونچا رکھتا آیا ہے۔ چاہے اُس کے لیے اُسے اپنی بہن یا بیٹی کی بھی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے اور قیامت تک شاید یہ کوشش جاری رہے گی۔ اگر آپ اپنے اِردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو رِشتوں میں کہیں مرد کُھونٹے سے بندھے نظر آئیں گے کہیں عورتیں، ناخوش چہرے، تَرسی ہوئی نظریں، ہوس سے بھرپور ٹھنڈی آہیں، تبھی تو ہمارے معاشرے میں ہر طرف بیمار ذہن گھومتے نظر آتے ہیں۔
یہ ایک گلا سڑا معاشرہ ہے، جس کو کوڑھ کی بیماری ہے اور آہستہ آہستہ یہ پورا جسم بیمار ہوتا چلا جا رہا ہے۔
میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہی کہ عورتیں کسی لحاظ سے کم ہیں۔ میں صرف یہ عرض کرنے کی جسارت کر رہی ہوں کہ عورت اور مرد اِس دُنیا کی کہانی کے دو کِردار ہیں اور اُنھیں سمجھنا بھی ایسے ہی پڑے گا. کیوں کسی بھی مرد کی محبت میں پاگل ہو کر اخلاق کا دامن چھوڑ دیں، کیوں ایک مرد کی خاطر وہ کام کریں جو اِخلاق سے گِرا ہوا ہو؟
اگر کسی مرد کا تعلق کسی اور عورت سے جُڑ گیا ہے تو ساری گالیاں بے چاری عورت کو ہی کیوں پڑتی ہیں۔ او بھائی! رُک جاؤ، کیا عورت 35/40 سال کے لونڈے کو گولی دے کر ملنے بلاتی ہے؟ جی نہیں، حضرت بقلم خود اپنے مبارک قدموں سے چل کر حسین دوشیزہ سےملنے آتے رہے ہیں۔
میرا اُستاد کہتا ہے کہ جب بھی کچھ مَنفی ڈُھونڈو گے تو کوئی نہ کوئی بات تو مل ہی جائے گی۔ تو بات مرد کی ہو رہی تھی۔ اگر آفس میں تِتلیوں کی طرح رنگ برنگے کپڑوں میں جِھلملاتی خوبصورت لڑکیاں دیکھ کر اس کے دل کے تار چھڑ جاتے ہیں تو قصور adernaline یا dopamine کا ہے جو ان لڑکیوں کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے، مرد کا نہیں۔
گیا وہ وقت جب مے کی تلاش میں پھرا کرتے تھے مارے مارے، اب تو 40/100 روپے کی گولی سے بھی نشہ چڑھ جاتا ہے اور نشے کہ ساتھ مَدہوش، بدحواس حسینائیں اپنا سب کچھ مردوں پر سوچے سمجھے بغیر قربان کر دیتی ہیں۔ ایسے میں مرد بےچارہ کیا کرے وہ بھی چھوٹا موٹا سودا کر ہی لیتا ہے لین دین کا۔
آج کا مرد دراصل ایک کشمکش اور جُستجو کا شکار ہے۔ کشمکش یہ کہ کیا میں نے صحیح فیصلہ کیا؟ کیا میں نے صحیح ہمسفر چُنا؟ کیا میں اِس کے ہی لائق تھا؟
اور جُستجو یہ کہ ایک زیادہ خوبصورت، زیادہ حسیں، زیادہ سمجھدار ہمسفر تلاش کیا جائے، کیوں کہ مرد چار شادیاں اور نہ ختم ہونے والے تعلقات بنا سکتا ہے۔
کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ مرد کو عورت (ہمسفر) میں ایک لازوال محبت کرنے والی ماں چاہیے، ایک ہر وقت خوبصورت دکھنے والی گڑیا چاہیے، ایک چنچل شوخ حسین دوست چاہیے، ایک مشورہ دینے اور عقل ودانش کی بات کرنے والی سمجھدار خاتون چاہیے، ایک نوجوان اُمنگوں کی مالک خاتون چاہیے جو اِس کی ازدواجی زندگی میں رنگ بھر دے، ایک ایسی ہم راز ہمسفر چاہیے جو سُنے تو ساری مگر بولے کُچھ نہ، مرد کو گھر کا کام کرنے والی سلیقہ شعار گھریلو سگھڑ عورت بھی چائیے جو اُس کا گھر اور بچے سنبھال لے۔
غرض کہ آدمی ایک مکمل سوچ کا حامل ہے اور خود چاہے کتنا بھی ادھورا کیوں نہ ہو اُسے اَدھورے پن سے شِدت کی حد تک نفرت ہوتی ہے۔
مرد کے ساتھ زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہے کہ آپ اپنے مرد کو بہتا دریا سمجھیں. کوشش کریں کہ اُس کے آزاد خیالات کے ساتھ بہتے پانی کے بہاؤ کی طرح بِہہ جائیں کیونکہ جہاں آپ نے بند باندھا وہاں پانی کا ٹکراؤ شروع ہو جائے گا اور مرد کو نہ تو بَندھن پسند ہے نہ باندھنے والیاں، مرد خود ہتھیار ڈال دے تو اَلگ بات ہے۔
مرد خاوند ہو یا بیٹا، دونوں صورتوں میں اُسے سمجھنا مشکل ہے اور سمجھانا ناممکن. مرد کے ساتھ صرف میٹھی زبان اور پیارسے بات کی جا سکتی ہے. آپ کی زبان کی یا مزاج کی تُرشی اَگلے کچھ لمحوں میں آپ کے کانوں پر گالیوں کی صورت میں اور منہ پر تھپڑوں کی صورت میں برسنے لگیں گے۔
ہر اِنسان میں عزتِ نَفس ہوتی ہے کیونکہ آدمیوں کی عِزت اُن کی انّا کی طرح تھوڑی زیادہ ہوتی ہے وہ بات بے بات مجروح ہوجاتی ہے. خیرعزتِ نَفس تو کس کی بھی مجروح نہیں ہونی چائیے لیکن ایک مرد کے لیے یہ اس کہ جینے اور مرنے کی بات بَن جاتی ہے اور جب کسی مرد کو کسی ایسے مقام پر کھڑا کر دیا جاتا ہے جہاں اُسے اپنی عِزت اور آپ کی ذات میں چناؤ کرنا ہوتاہے تو وہ بلا جھجک اپنی عِزت کا اِنتخاب کر لیتا ہے اور آپ کو راستے کہ پتھر کی طرح پھینک دیتا ہے۔
میں اِس بات کی ہرگز قائل نہیں جو بچوں کے دماغ میں بچپن سے ہی بھر دیا جاتا ہے کہ دیکھو! مرد بنو مرد، مرد کبھی نہیں روتے، مرد کو درد نہیں ہوتا، وغیرہ وغیرہ. دراصل مرد کو رونا بھی آتا ہے اور اُسے درد بھی ہوتا ہے۔
پتا نہیں اُس کہ فولادی جثے کو دیکھ کر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مرد بھی اِنسان ہے، گوشت پوشت کا بنا ہمارے ہی جیسا خطا کا پتلا۔
وہ بھی ہماری ہی طرح اپنے کَندھوں پر زمانے کی صلیبیں لادے اپنی زندگی کے چکر میں گھومتا جا رہا ہے۔ اُس کے دل میں بھی جلن،خوف، حسد جنم لیتے ہیں لیکن فطرت نے اُس کی ساخت ایسی بنائی ہے کہ وہ کچھ بھی ظاہر نہیں کرتا لیکن اُسے سمجھنے کو تیار کوئی نہیں ہے نا اِس معاشرے کے مرد اور نا ہی عورت۔