مجبوری میں کبھی کبھی اوپن ہارٹ سرجری بھی کرنا پڑ جاتی ہے (فوٹو اے ایف پی)
جو فیصلہ کیا گیا اسے اچھا یا برا کہا جا سکتا ہے پر ایک بات کی شاباش دینا پڑے گی۔ یہ پہلی سرکار ہے جس نے لگی لپٹی بغیر بتا دیا کہ آئین کے آرٹیکل 370 کے سبب ہی کشمیر میں اقربا پروری، کرپشن اور دہشت گردی بڑھی۔
اب جبکہ دہشت گردی کا سبب ہی اڑ گیا دہشت بھی اڑن چھو ہو جائے گی۔یعنی یہ دنیا کے کسی بھی ملک کا پہلا آئین ہے جو 71 برس تک دہشت گردی کو بڑھاوا دیتا رہا۔ اب یہ اڑچن صاف ہو گئی۔
اور یہ جو گھاٹی اور سری نگر کے اکادکا فوٹیج این ڈی ٹی وی، روئٹرز اور بی بی سی سمیت مختلف چینلوں پر دکھائے جا رہے ہیں۔ یہ ان کشمیریوں کے ہیں جو مارے خوشی کے اتنے پاگل ہو گئے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کریں تو کیا کریں۔
جیسے بچے کھلونوں کی دوکان میں گھس جائیں تو باؤلے ہو جاتے ہیں کہ کون سا کھلونا لیں کون سا چھوڑ دیں۔ جیسے کمی کمین کو چوہدری صاحب پہلی بار زمین کے بجائے کرسی پر بیٹھنے کو کہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ تشریف نشست پر آدھی ٹکانی ہے کہ پوری، سالم ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھا جا سکتا ہے کہ دونوں پیر جوڑ کے، ہاتھ ہتھے پر رکھے جا سکتے ہیں یا بغلوں میں چھپا کے بیٹھنا ہے۔
چنانچہ خوشی سے پاگل یہ کشمیری کبھی پولیس تو کبھی نیم فوجی سپاہیوں کی گاڑیوں کو پتھر مار کے خود کو دیے گئے ’نئے سیاسی اختیار اور آزادی‘ کا استقبال کر رہے ہیں۔ جیسے ہمارے اور آپ کے پنجاب میں جب کچھ لوگ خوشی سے بےقابو ہو جاتے ہیں تو ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوئے گھٹ کے جپھی ڈالتے ہوئے ہوا میں گھماتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا کرنا ہے۔ سیاسی و عسکری بجلی کےجھٹکوں سے تو دماغ بہتر برس میں بھی درست نہیں ہو سکا۔ جب بھی ہوش آتا مرغے کی وہی ایک بانگ۔ آزادی ، آزادی ، آزادی۔
لہذا مجبوری میں کبھی کبھی کسی قوم، علاقے یا صوبے کی اوپن ہارٹ سرجری بھی کرنا پڑ جاتی ہے۔ ویسے بھی دنیا کا کون سا مریض ہے جو بلا چون و چرا آپریشن ٹیبل پر لیٹ جائے۔ یہ تو ڈاکٹر کو ہی پتہ ہوتا ہے کہ مریض کے حق میں کیا بہتر ہے۔ تو پانچ اگست کو یہی ہو گیا۔
مگر ڈاکٹر صاحب اب کیا کریں؟ آئی سی یو سے جنرل وارڈ میں کب شفٹ کرنا ہے، نیند کے انجکشن میں ہی رکھنا ہے یا ہوش میں لا کر بھی دیکھنا ہے کہ مریض کیسا رسپانس کر رہا ہے۔ کوئی کوئی مریض غنودگی ٹوٹتے ہی ٹانگیں چلانا شروع کر دیتے ہیں لہذا انہیں رسیوں سے جکڑ کے لٹائے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب تھوڑا ہے کہ خدانخواستہ مریض سے کوئی دشمنی ہے۔
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بس مواصلات اور نقل و حرکت کی رسیاں عید کے بعد ڈھیلا ہونے کی دیر ہے پوری ریاست میں آگ لگ جائے گی۔ اول تو ایسا ہونا نہیں چاہیے اور اگر ہونے لگے تو اسے کنٹرول کرنے کے بھی کئی طریقے ہیں۔
ایک ماڈل تو فلسطین کا ہے۔ یعنی رفتہ رفتہ نئی آبادکاری کے ذریعے زمینی حقیقت بدل دی جائے اور یوں سمسیا کا سمادھان ہو جائے۔ مگر اس میں کافی سمے لگ سکتا ہے اور کشمیر اور فلسطین کے کیس میں بہت فرق ہے ۔ایک تو نام کا ہی فرق ہے دوسرے قابض طاقت کا بھی فرق ہے۔ ایک انڈیا ہے تو دوسرا اسرائیل۔ اسرائیل میں بھی ایسے بہت سے یہودی پائے جاتے ہیں جو مین سٹریم سے ہٹ کے فلسطینیوں کی خودمختار اور آزاد ریاست کے حامی ہیں اور انڈیا میں بھی ایسے بہت سے ہندو پائے جاتے ہیں جو دہلی سے زیادہ کشمیریوں کے موقف کے قریب ہیں۔
مگر جبری آبادکاری سے شائد کشمیر کا مسئلہ تیزی سے حل نہ ہو۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسرائیل 1967 سے اب تک زیادہ سے زیادہ سات لاکھ آبادکار مغربی کنارے پر بسا پایا۔ پھر بھی کمبخت فلسطینیوں کی اکثریت کم ہو کے نہیں دے رہی۔لاگت بھی زیادہ ہے۔ تین سو آبادکار گھروں پر مشتمل بستی کے لیے جو حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں وہ بھی قومی خزانے پر ایک مسلسل بھاری بوجھ ہیں۔ چنانچہ ہمیں دلی کے لیے دلی کی مرضی کے مطابق اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے کم خرچ بالا نشیں طریقے سوچنے چاہییں۔
مثلاً ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جیسے شاہ رخ خان اور عامر خان سمیت بہت سوں سے پوچھا گیا۔ اسی طرح کشمیری مسلمانوں سے بھی پوچھا جائے کہ جو جو پاکستان جانا چاہیں چلے جائیں۔ اور باقیوں کو سرکار ہریانہ سے تمل ناڈو تک زمین خرید کے بنیادی سہولتوں کی پیش کش کر کے بسا دے۔ وادی کے اسی لاکھ انسانوں کا سوا ارب میں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ زبردستی بھی کرنا پڑے تو چلے گا۔ قومی مفاد کا تقاضا ہو تو کسی نہ کسی کو تو بلیدان دینا یا لینا پڑتا ہی ہے۔
ہم کوئی نئی بات نہیں کر رہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب سٹالن نے سوویت یونین کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والے قزاقوں، وولگا جرمنز، چیچن، سائبیریائی کورینز سمیت چھوٹی بڑی پندرہ سے زائد قومیتوں کے دو کروڑ شرارتی لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں سے اٹھا کر سینکڑوں ہزاروں کلو میٹر دور وسطی ایشیا کی سوویت ریاستوں اور سائبیریا میں بسا کر مادرِ وطن کے سر درد کا علاج کر لیا۔
کشمیر کی وادی میں تو آبادی ویسے ہی اتنی زیادہ نہیں ۔ان کی طبیعت سٹالنی طریقوں سے سیٹ کرنا کیا مشکل ہے۔
یہ طریقہ پسند نہیں تو پڑوس کی مثال لے لیں۔ سنا ہے وہاں دس لاکھ شرارتی بچوں کو ری ایجوکیشن کیمپوں میں کامیابی سے دیش بھگت بنانے کا پروجیکٹ جاری ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ایک کام شروع کر ہی دیا گیا ہے تو اسے بیچ میں چھوڑ دینا مناسب نہ ہوگا۔ مودی سرکار کی یہی بات تو اچھی ہے کہ ایک بار جو کمٹنٹ کر لے اسے پورا کر کے رہتی ہے اور پھر اپنی بھی نہیں سنتی۔ بعد میں کیا ہوتا ہے بعد میں دیکھ لیں گے۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟