Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وسعت اللہ خان کا کالم: زخم کھاتے ہیں زہر اگلتے ہیں

اگر سب کچھ ٹھیک رہا اور یہاں ٹھیک سے مراد ہے صدر ٹرمپ کا ٹوئٹر۔ تو پھر انشااللہ پانچ روز بعد اپنے عمران خان صاحب وائٹ ہاؤس میں صدرِ امریکہ سے بطور وزیرِ اعظم پہلی باضابطہ ملاقات کر رہے ہوں گے۔
 یہ باضابطہ ملاقات شروع کے پندرہ منٹ میں بے ضابطہ نہ ہوئی تو سمجھ لیجیے کچھ بہتری کی توقع  ممکن  ہے اور یہ توقع یوں  بے جا نہیں کیونکہ امریکہ کی گوٹ افغانستان میں پھنسی  ہے اور پاکستان کی گوٹ اقتصادی بے یقینی کی دلدل میں۔
تاریخی اعتبار سے بھلے امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ اپنا دور کا غریب قرابت دار سمجھا ہو مگر پاکستان آج بھی نفسیاتی طور پر امریکہ کو  امیر رشتے دار سمجھتا ہے۔کبھی امیر رشتے دار کی سب مان لیتا ہے ، کبھی روٹھ بھی جاتا ہے مگر پنڈ نہیں چھڑانا چاہتا۔
کیک کھانے کے اب تک دو ہی معلوم طریقے ہیں۔ یا تو آپ کھا سکتے ہیں یا پھر اسے نہ کھا کر محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنا کیک کھائیں بھی اور اسے کم بھی نہ ہونے دیں۔
آپ کا بنیادی قومی مفاد کیا ہے ؟ یہی نہ کہ انڈیا آپ پر علاقائی، اقتصادی یا سیاسی طور پر غالب نہ آ جائے؟ آپ کی 73 سالہ بھاگ دوڑ اسی ایک نکتے کے گرد گھومتی رہی ہے نا؟ اور اس بھاگ دوڑ کے دوران  جس نے بھی آپ کو مسکرا کے دیکھ لیا اسی کو آپ نے مددگار سمجھ لیا۔
ذرا کبھی ٹھہر کے ناقدانہ جائزہ تک نہ لیا  کہ آپ کی انڈین کمزوری کو ایکسپلائٹ کرنے والے یار لوگوں نے آپ سے تعاون کے نام پر کیسے کیسے کام نکلوا لیے اور آپ  گھوم پھر کے عدم تحفظ کے میدان میں آج بھی وہی پرانی نفسیاتی نیکر پہنے کھڑے ہیں۔
کسی بھی دشمن کو نہتا کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ میں اتنی طاقت ہو کہ نہتا کر دیں۔ نہ کر پائیں تو اپنے بنیادی بقائی مفادات پر سمجھوتہ کیے بغیر اس سے دوستی گانٹھنے کی کوشش کریں۔
یہ بھی مشکل لگے تو پھر ایسا  دوست یا اتحاد تلاش کریں جو آپ کے عدو پر بھی رسوخ رکھتا ہو۔یہ بھی مشکل ہے تو پھر ایسا یا ایسے دوست تلاش کریں جن کے اور آپ کے علاقائی مفادات مشترک ہوں اور ان کی صحبت میں آپ خود کو کسی حد تک محفوظ سمجھیں۔
پہلے تین کام آپ سے ہو نہیں سکے مگر چوتھا  کام بھی آپ اناڑی پن سے کرتے آ رہے ہیں ۔کبھی ایک اتحاد میں ضرورت سے زیادہ گھس گئے کبھی ضرورت سے زیادہ لاتعلق ہوگئے کبھی ضرورت سے زیادہ دو عملی اختیار کر لی اور کبھی ایک بڑے کام  کے ساتھ اپنا چھوٹا سا کام ٹانک کر بڑا کام دینے والے کو بدکا دیا اور کبھی خود دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے جھنجھلاہٹ میں بدک گئے۔یہ رویہ دو انسانوں  کے مابین تو چل سکتا ہے مگر ریاستوں کی تعلقاتی فارسی میں فٹ نہیں بیٹھتا۔
جس طرح لغوی معنوں میں کوئی مجرم ایماندار نہیں ہوتا اسی طرح کوئی بھی ریاست لغوی معنوں میں ایماندار نہیں ہوتی ، نہ ہونا افورڈ کر سکتی ہے۔ البتہ مشکل یہ ہے کہ بے ایمانی بھی بنا سلیقہ یا بغیر ایمانداری زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔

تاریخی اعتبار سے بھلے امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ اپنا دور کا غریب قرابت دار سمجھا ہو مگر پاکستان آج بھی امریکہ کو  امیر رشتے دار سمجھتا ہے: تصویر اے ایف پی

لہٰذا مجرم ہو کہ  ریاست انہیں اپنی بقا کے لیے مفاداتی ایمانداری کا ضابطہِ اخلاق بنانا ہی پڑتا ہے۔اور جو بھی اس ضابطہِ اخلاق کو پامال کرتا ہے اس سے سنڈیکیٹ میں شامل باقی ارکان مافیائی سلوک کرتے ہیں اور دیگر ریاستیں ایسی ضابطہ شکن ریاست کو قسط وار زخم دے کر نمٹتی ہیں۔
اس نظریے کی روشنی میں پاکستان کو ایک بار پھر سنہری موقع ملا ہے کہ وہ  ترازو کے دو پلڑوں کو جوڑنے والی ڈنڈی پر چلنے کے بجائے کسی ایک پلڑے میں اتر آئے۔
جہاں دو کشتیوں میں پاؤں رکھتے رکھتے عمر گزر گئی  وہاں ایک کشتی میں دونوں پاؤں رکھنے کا تجربہ بھی سہی ۔اس دوران اگر کوئی پیچھے سے آواز لگائے کہ  بھینس بھینس تجھے چور لے چلے تو اسے بتا دیا جائے کہ تو جو چارہ ڈالتا رہا ہے وہ تو چور بھی دیں گے۔
ہاں تو پھر کیا سوچا۔امراؤ جان کی طرح کوٹھے کوٹھے آئیڈیل کی تلاش جاری رکھنی ہے یا  گھر بسانے کا بھی سوچنا ہے  جیسا بھی بسے۔مگر شائد یہ کہنا آسان ہو۔ کسی ایک کا ہونے سے امراؤ کا تو بھلے بھلا ہو جائے مگر امرا  کا شائد نہ ہو پائے۔

وزیراعظم عمران خان 21 سے 23 جولائی کو امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جس دوران وہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے: فوٹو اے ایف پی

عوام کو تو صرف جان و مال کی سکیورٹی ، قانونی رٹ اور مساوات چاہیے بھلے کسی بھی کمپنی کے نام پر ہو۔اصل مشکل اور نخرہ امرا کا ہے ۔انھیں چینی سی پیک بھی چاہِیے اور امریکی ایف سولہ بھی ۔عوام کو تو نئے روزگاری تقاضوں کی خاطر مینڈرین زبان کی شدبد  چاہیے مگر امرا کو کچھ الگ سا دکھنے کے لیے انگریزی اور ہارورڈ چاہیے۔
پروجیکٹ شنگھائی کی  کمپنی کا اچھا مگر پیسہ جمع کرانے کے لیے بینک سوئس ہو تو اور اچھا۔دورہ بیجنگ کا اچھا مگر رہنا دبئی، لندن ، ٹورنٹو یا نیویارک کا اچھا۔امداد بھی ویل کم اور قرض کو بھی خوش آمدید ، پائیدار سڑک بھی درکار مگر کمیشن سے بھی نہیں انکار۔

پروجیکٹ شنگھائی کی  کمپنی کا اچھا مگر پیسہ جمع کرانے کے لیے بینک سوئس ہو تو اور اچھا۔دورہ بیجنگ کا اچھا: فوٹو اے ایف پی

جانا ریاض اور دیکھنا ہانگزو کی طرف، مشرق کی طرف سے بھی سرمایہ کاری  چاہیے اور مغرب کی طرف  آئی ایم ایف بھی نگاہ سے اوجھل نہ ہو۔وفاداری  کی بھی خواہش  مگر چانس ملنے پر آنکھ مٹکے میں بھی کوئی حرج نہیں۔اچھا بھی چاہئے مگر توازن برقرار رکھنے کے لیے برا بھی چاہیے۔آزادی بھی چاہیے مگر پا بہ زنجیر رہنے کی پرانی خواہش بھی ٹوکری میں نہیں پھینکنی۔
اکیسویں صدی کے تقاضے بھی پورے کرنے کو جی چاہتا ہے مگر انیسویں صدی کی غلامانہ اوڑھنی بھی نہیں اتارنی۔
ان حالات میں وفاداری و یک رخی کے معنی جاننا ایک طرف  اور ان معنی کو برتنا اور بات ہے ۔میں نے تو آج تک کوئی ہیروئنچی نہیں دیکھا جو ہیروئن پینے کو اچھا سمجھتا ہو۔مگر  کرے تو کیا کرے ؟ بقول جون ایلیا،
ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چلنا پڑئیے تو پاؤں جلتے ہیں۔
ہم کوئی بد معاملہ تو نہیں
زخم کھاتے ہیں ، زہر اگلتے ہیں
ہوں رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
 

شیئر: