Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پچاس لاکھ بے گھروں کو چھت دینے کے خواب کی حقیقت کیا ہے؟

وزیراعظم عمران خان نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنی انتخابی مہم میں  پچاس لاکھ گھر بنانے کے وعدے کی تکمیل کے لیے ’نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم‘ کی بنیاد رکھی۔
آج جب ان کی حکومت کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے تو ان کے شروع کیے گئے دیگر منصوبوں کی طرح گھروں کی تعمیر کا یہ منصوبہ بھی ابھی حقیقت سے کافی فاصلے پر ہے۔ 
گذشتہ ایک سال کے دوران وزیراعظم نے اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے بہت سے اجلاسوں کی صدارت کی اور اس کے لیے ضروری قانون سازی بھی کی لیکن اسے حقیقت کا روپ دھارنے میں کافی وقت لگنے کا امکان ہے۔
انتخابات سے قبل جلسوں میں جب وزیراعظم نے بار بار اعلان کیا کہ ان کے حکومت میں آتے ہی 50 لاکھ گھروں سمیت ان کے بتائے گئے تمام منصوبوں پر فوری عملدرآمد ہو جائے گا تو لوگوں کو امید لگ گئی تھی کہ عمران خان اقتدار سنبھالتے ہی ان گھروں کا سنگ بنیاد رکھ دیں گے۔
تاہم انہیں اس کے لیے کئی ماہ لگ گئے اور طویل ہوم ورک کے بعد وفاقی کابینہ نے بالآخر اپریل 2019 میں ’نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی‘ کے قیام کی منظوری دی اور پہلے سال میں ایک لاکھ 35 ہزار یونٹس تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔
19 اپریل کو وزیراعظم نے سکیم کا افتتاح کیا اور آن لائن رجسٹریشن کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
وفاقی حکومت نے 22 مئی کو ’نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی‘ کا آرڈیننس جاری کیا لیکن آج تک ایک بھی گھر کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہو سکا۔

انتخابات سے قبل عمران خان نے کئی مرتبہ کہا کہ وہ لوگوں کے لیے پچاس لاکھ گھر تعمیر کریں گے، فوٹو: اے ایف پی

 حکومتی ذمہ داروں کا ماننا ہے کہ یہ سکیم ابھی ضابطے کی ضروری کارروائیوں سے گزر رہی ہے اور اس کے ایک مرتبہ عملی شکل اختیار کرنے کے بعد گھروں کی تعمیر میں یکدم بہت تیزی آئے گی۔
وزیراعظم کی زیر سرپرستی بننے والی اس ہاؤسنگ اتھارٹی کے تحت جائیداد کے شعبے کے منصوبوں کی منصوبہ بندی’ترقی‘ تعمیراورانتظام کے لیے پانچ سال کی مدت کے لیے ایک پالیسی بورڈ تشکیل دیا جائےگا جس کے اراکین کی تعداد چیئرمین سمیت پانچ سے کم اور گیارہ سے زیادہ نہیں ہو گی۔
یہ اتھارٹی ان غیر منقولہ جائیدادوں اور منصوبوں کی نشاندہی کرے گی جو ہاؤسنگ سکیمز کی ترقی کے لیے موزوں ہوں گے۔
 لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ انورعلی حیدر کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق سکیم کے تحت گھروں کی تعمیر جلد شروع ہو گی۔
 وزیر اعظم نے اسلام آباد، کوئٹہ اور اوکاڑہ میں منتخب جگہوں پر گھروں کی تعمیر کے لیے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے.
وزارت ہاؤسنگ کی جانب سے اسلام آباد میں منصوبے کی تعمیر کے لیے چھ سائٹس منظور کی گئی ہیں۔
اس سال بجٹ میں 5 ارب روپے کی رقم بھی مختص کی گئی ہے جو کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو گھروں کی تعمیر کے لیے بلا سود قرضہ فراہم کرنے کے کام آئے گی۔

وزیراعظم عمران خان کا ماننا ہے کہ ہاؤسنگ منصوبے سے ملک میں 40 صنعتیں پروان چڑھیں گی، فوٹو: پی ٹی آئی

وزیراعظم عمران خان کا ماننا ہے کہ گھروں کی تعمیر کے اس منصوبے سے ملک میں 40 صنعتیں پروان چڑھیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے مرکزی کردار نجی شعبے کو دیا گیا ہے اور حکومت اس میں سہولت کار کا کردار ادا کرے گی۔
اس سلسلے میں حکومت کو فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاﺅسنگ فاﺅنڈیشن اور نجی شعبہ کے ساتھ جوائنٹ وینچرز کے لئے 39 کمپنیوں/کنسورشیمز سے 93 تجاویز موصول ہوئی ہیں۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے ہاؤسنگ تاشفین صفدر، جو کہ خود بھی آرکیٹیکچر ہیں، نے ’اردو نیوز‘  سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بے گھر افراد کی شرح انڈیا اور بنگلہ دیش سے بھی زیادہ ہے اور ہاؤسنگ کے شعبے میں خامیاں بھی بے پناہ ہیں۔
’اسی لیے حکومت نے (سب سے) پہلے ان خامیوں کو دور کرنے کا فیصلہ کیا اور وزیراعظم نے اس سلسلے میں ٹاسک فورس قائم کی جس میں ماہرین کو شامل کیا گیا۔‘
تاشفین صفدر کے مطابق اس ٹاسک فورس نے ماضی کی ہاؤسنگ سکیموں کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے تجاویز تیار کیں جن کی روشنی میں دیگر وزارتوں کو بھی اعتماد میں لے کر قانون سازی کی گئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان گھروں کی تعمیر سے متعلق کئی اجلاسوں کی صدارت کر چکے ہیں، تصویر: اے پی پی

انھوں نے کہا کہ ’حکومت نے عوام کو ان کی ملازمتوں کے قریب ترین گھر فرہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے نادرا اور اضلاع کی انتظامیہ سے ملازمین اور دستیاب زمینوں کی تفصیلات اکٹھی کی گئی ہیں۔‘
تاشین صفدر نے کہا کہ یہ کہنا مناسب نہیں کہ ایک سال میں اتنے گھر بن جائیں گے اور دوسرے سال میں اتنے یونٹس تیار ہوں گے۔
 ’ہو سکتا ہے کہ صرف منصوبہ بندی میں ہی دو سال لگ جائیں۔‘
 تاہم انھوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ جب حکومت کے پانچ سال پورے ہوں گے تو 50 لاکھ گھر بھی تعمیر ہو چکے ہوں گے اور ایسا خودکار نظام بن چکا ہو گا کہ کسی بھی نئی حکومت کے آنے سے یہ منصوبہ رک نہیں سکے گا۔
ماہر معاشیات اور موجودہ حکومت کی اکنامک ایڈوائزی کونسل کے اہم رکن ڈاکٹر اشفاق حسن نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کے خیال کو سراہا۔
’تعمیرات کے شعبے کو مدر آف انڈسٹریز کہا جاتا ہے جس کے چلنے سے چالیس صنعتیں ایک ساتھ آگے بڑھتی ہیں اور ایک مزدور سے لے کر انجینیئر تک کو نوکریاں ملتی ہیں۔‘
تاہم ڈاکٹر اشفاق نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں یہ منصوبہ مکمل ہوتا نظر نہیں آتا۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بے گھر افراد کی شرح انڈیا اور بنگلہ دیش سے بھی زیادہ ہے، فوٹو: اے ایف پی

’پاکستان کے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت حکومت 13 سے 14 فیصد شرح سود پر قرضے لے رہی ہے تو جب نجی شعبہ قرضہ لے گا تو اس کی شرح 17 سے 18 فیصد ہو گی۔ ایسے میں کون سا نجی شعبہ ہے جو سرمایہ کاری کے لیے آئے گا؟‘
اشفاق حسن کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری ہاؤسنگ نے کہا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کے مالی معاملات کو وزیراعظم خود دیکھ رہے ہیں۔ وہ بینکوں سے بھی بات کر رہے ہیں اور سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے وزارت خزانہ کوبھی اقدامات کرنے کی ہدایات دے چکے ہیں۔
تاہم ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ حکومت اس منصوبے کو آسان بنانےکے لیے جتنی مرضی کوشش کر لے، اس کے معاشی اقدامات سے اس منصوبے کی لاگت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ عام آدمی یعنی تنخواہ دار طبقے کی پہنچ سے بھی دور ہو رہا ہے۔
’جب عام آدمی مکان لینے بینک کے پاس جائے گا تو وہ اسے جو قیمت اور قسط بتائے گا اس وقت کم از کم وہ ایک تنخواہ دار آدمی کی پہنچ سے دور نکل چکی ہے۔ میں نے حکومت کو بتایا تھا کہ آئی ایم ایف جانے سے نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ پورا نہیں ہوسکے گا۔‘
تاہم تاشفین صفدر مصر ہیں کہ حکومت نے اس حوالے سے کیٹگریز تشکیل دی ہیں، اور تمام شہریوں کو ان کی آمدن کے مطابق گھر فراہم کیے جائیں گے۔
’جب بھی کوئی شخص اپنی ماہانہ آمدن بتائے گا تو حکومت اسے اس کی آمدن کی روشنی میں متعلقہ کیٹیگری کا گھر تجویز کرے گی جس کی قسط مناسب اور آسان ہو گی۔‘

شیئر: