Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر: شہلا رشید پر غداری کی دفعات

انڈیا میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کی طلبہ یونین کی سابق نائب صدر اور حال میں تشکیل پانے والی سیاسی جماعت کشمیر پیپلز موومنٹ کی رکن شہلا رشید ایک بار پھر سوشل میڈیا پر موضوع بحث ہیں۔
ایک معروف ٹی وی چینل نے تو ٹوئٹر پر ان کی گرفتاری سے متعلق ایک سروے بھی جاری کردیا کہ 'آیا شہلا رشید کو ان کے ٹویٹ کے سبب گرفتار کرنا چاہیے یا نہیں؟ لیکن بعد میں اس ٹویٹ کو ہٹا لیا گیا۔
کشمیر میں سرینگر کے حبہ کدل علاقے میں پیدا ہونے والی شہلا پہلی بار شہ سرخیوں میں اس وقت آئی جب انھوں نے جے این یو کے صدر کنہیا کمار، عمر خالد اور ديگر طلبہ کی رہائی کے لیے مظاہرے اور احتجاج کی رہنمائی کی تھی۔
لیکن اس بار وہ کشمیر کے موجودہ حالات پر اپنی ٹویٹس کے لیے سرخیوں میں ہیں۔ جب سے انھوں نے اپنے مختلف ٹویٹس کے ذریعے کشمیر کے حالات کو پیش کیا ہے، ان کے خلاف پولیس میں بھی شکایت کی گئی ہے اور ہندوستان کی فوج نے ان کے الزامات کو ’بے بنیاد‘ اور ’غیرتصدیق شدہ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
شہلا رشید نے اپنے مختلف ٹویٹس میں سکیورٹی فورسز پر وادی میں عام شہریوں کے خلاف تشدد کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔
اس کے بعد انڈیا سپریم کورٹ کے ایک وکیل الکھ آلوک سریواستو نے سوموار کو شہلا رشید کے خلاف پولیس کمشنر کے دفتر میں شکایت داخل کی ہے جس میں میڈیا رپورٹس کے مطابق انھوں نے ’فوج اور حکومت کے خلاف جعلی خبریں پھیلانے اور مختلف طبقوں کے درمیان مخالفت پیدا کرنے کے جرم میں شہلا رشید کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی شکایت پر دلی پولیس کی سپیشل سیل کو جانچ کا حکم دیا گیا ہے۔
ان پر تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت شکایت کی گئی ہے جس میں غداری کی دفعات بھی شامل ہے۔
شہلا رشید نے دس پوائنٹس میں ٹویٹ کی ہے جو تنازعے کی زد میں آئی اس میں انھوں نے ذرائع کا ذکر کیے بغیر لکھا ہے کہ ’جموں کشمیر پولیس کا قانون کے نفاذ کا اختیار ختم کر دیا گیا اور تمام چیزیں نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ ایس ایچ او اپنی سروس ریوالور کے بجائے ڈنڈا اٹھائے دیکھے جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید الزام لگایا کہ ’مسلح افواج رات کو گھروں میں گھس رہے ہیں، بچوں کو اٹھا رہے ہیں، گھروں کو الٹ پلٹ کر رہے ہیں، جان بوجھ کر راشن زمین پر بکھیر رہے ہیں، چاول میں تیل ملا رہے ہیں۔‘
اپنے دسویں اور آخری پوائنٹس میں انھوں نے شوپیاں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’چار افراد کو آرمی کیمپ میں بلایا گیا اور پوچھ گچھ (ٹارچر) کی گئی۔ ان کے قریب مائک بھی رکھا گیا تاکہ سارا علاقہ ان کی چیخیں سن سکے اور دہشت زدہ ہوں۔ اس بات نے سارے علاقے میں خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے۔‘
ایک صحافی بھوپیندر چوبے نے جب شہلا رشید سے پوچھا کہ ’لوگ کہاں مارے جا رہے ہیں؟ شواہد پیش کریں؟‘ تو شہلا نے جواب دیا کہ ’آپ مجھ سے صحافی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ آپ کے رپورٹر کو شوپیاں جانے سے روک دیا جائے گا۔ وہ واپس آکر سرینگر کے ڈی سی، گورنر کے مشیر وغیرہ سے انٹرویو کریں گے اور یہ دکھائیں گے کہ کس طرح حالات معمول پر ہیں۔ اگر آپ کے رپورٹر واقعی کوئی چیز ملے گی تو آپ اس کو ایڈٹ کر دیں گے۔‘
اس سے قبل ایک دوسرے ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’اچھا تو یہ ہے کہ اپنے رپورٹر سے کہیں کہ کشمیر جائے اور مودی حکومت کی پی آر ایجنسی کے طور پر کام کرنے کے بجائے کچھ حقیقی گراؤنڈ رپورٹنگ کرے۔ اپنے رپورٹر سے کہیں کہ شوپیاں یا صفا کدل جائے اور رپورٹ کرے۔‘
اس کے فوراً بعد انڈین میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے شہلا رشید نے لکھا کہ ’آپ کو ثبوت سے کیا سروکار؟ پتھری بل کے جعلی انکاؤنٹر کو سی بی آئي نے کہا کہ وہ دشمنی میں کیا گیا قتل تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر چہ یہ پہلے سے منصوبہ کے تحت کیا گیا قتل ہے لیکن فوج کا حاصل خصوصی اختیارات کی وجہ سے اس پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔‘
جہاں شہلا رشید کو ان کے ٹویٹس کے لیے ٹرول کیا جا رہا ہے وہیں ان کے حق میں بولنے والے افراد نظر آ رہے ہیں۔ بعض کو خود شہلا رشید نے ری ٹویٹ کیا ہے۔
مدثر جمال نامی ایک صارف نے لکھا: ’آپ کو جرنلزم کے سکول واپس جانا چاہیے۔ شہلا نے جو دعوے کیے وہ درست یا غلط ہو سکتے ہیں لیکن سچ جاننے کے لیے آپ کو آزادانہ طور پر ان کے دعووں کی جانچ کرنی چاہیے۔‘
مدھومتا مجمدار نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’شہلا رشید کو بھول جائیں کوئی احمق بھی بتا سکتا ہے بی جے پی کے راج میں کشمیر میں امن کبھی نہیں لوٹ سکتا، تمام چیزیں بندوق کی نال پر نہیں کی جا سکتیں۔‘
فیک نیوز کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی پرتیک سنہا نے لکھا کہ آپ بغیر آزادانہ جانچ کے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ شہلا غلط بیانیہ تیار کر رہی ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ پھیلا رہی ہیں یا ممکنہ طور پر سچ بول رہی ہیں۔ لیکن اس کا فیصلہ صرف آزاد جانچ سے ہو سکتا ہے، ٹھیک؟ یا فوج ایسا کہہ رہی ہے یہی کافی ہے؟
شہلا رشید نے بھوپیندر چوبے کے کئی ٹویٹس کا جواب دیا۔ چوبے نے لکھا کہ ’آخر میں جیت ہندوستانی جمہوریت کی ہوگی۔ ہمیں کشمیر کے بارے میں خیال ظاہر کرنے میں ذرا صبر دکھانا چاہیے اور ایسی کوئی چیز نہیں کہنی چاہیے جس کو سچ سے ثابت نہ کیا جا سکے۔ ہمیں عمران خان کی پی ٹی آئی کی قیادت والی دہشت گردی کو گولہ بارود نہیں دینا چاہیے۔‘
اس کے جواب میں شہلا نے لکھا کہ ’کشمیر میں جس چیز کی موت ہوئی ہے وہ ہندوستانی جمہوریت ہے۔ ہر چیز کو پاکستان کی جانب نہ لے جائیں۔ ہم کشمیری صرف اس لیے چپ نہیں بیٹھ سکتے کہ کشمیر میں حکومت ہند کی کارروائی انھیں عمران خان کے مقابلے میں بری نظر آتی ہے۔ حقیقی لوگ مارے جا رہے ہیں، اندھے کیے جا رہے ہیں، منہ بندکیے جا رہے ہیں۔‘
اس کے جواب میں شہلا نے لکھا کہ ’کشمیر میں جس چیز کی موت ہوئی ہے وہ ہندوستانی جمہوریت ہے۔ ہر چیز کو پاکستان کی جانب نہ لے جائیں۔ ہم کشمیری صرف اس لیے چپ نہیں بیٹھ سکتے کہ کشمیر میں حکومت ہند کی کارروائی انھیں عمران خان کے مقابلے میں بری نظر آتی ہے۔ حقیقی لوگ مارے جا رہے ہیں، اندھے کیے جا رہے ہیں، منہ بندکیے جا رہے ہیں۔‘

شیئر: