پاکستان کی جانب سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کرنے کا معاملہ وزرا کے حالیہ بیانات کے باعث ایک معمہ بن گیا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے منگل کی رات نجی ٹی وی ‘اے آر وائی‘ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔
لیکن اس اعلان کے 24 گھنٹوں کے اندر وزیرِ قانون فروغ نسیم کی طرف سے جو پیغام دیا گیا وہ واضح نہیں تھا کہ پاکستان فوری طور پر عالمی عدالت جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا ’اس وقت پاکستان کے مفاد میں نہیں کہ اپنا لائحہ عمل عام کرے۔‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے عالمی عدالتِ انصاف میں جانے کے بیان کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ کہیں یہ اعلان کرنے میں جلد بازی سے کام تو نہیں لیا گیا۔ یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آیا پاکستان اس معاملہ پر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا حق بھی رکھتا ہے یا نہیں؟
اردو نیوز نے اس معاملے کو جب پاکستان کے وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کے سامنے رکھا تو انھوں نے اس کا واضح جواب نہیں دیا کہ کیا پاکستان ہیگ میں عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا یا نہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں اردو نیوز کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون نے کابینہ میں اپنے ساتھی شاہ محمود قریشی کے عالمی عدالت انصاف میں جانے کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں اس معاملے پر فی الحال بات نہیں کرنی چاہیے۔
’اس وقت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے کہ ہم اپنا لائحہ عمل عام کریں۔‘
وزیر قانون نے کہا کہ اگر ہم اس وقت اپنا لائحہ عمل بتا دیں تو انڈیا کو تیاری کا موقع مل جائے گا۔
مزید پڑھیں
-
کشمیر کا معاملہ عالمی عدالت انصاف لے جانے کا فیصلہNode ID: 429906
ان کا کہنا تھا کہ یہ ’بات تو طے ہے کہ پاکستان کچھ نہ کچھ کرنے جا رہا ہے۔‘
اس سوال پر کہ آپ حکمت عملی میڈیا کی آنکھوں سے اوجھل رکھنا چاہتے ہیں جبکہ وزیر خارجہ میڈیا پرہی اس کا اعلان کر رہے ہیں، فروغ نسیم نے کہا کہ ’میں آپ کو وزیر خارجہ کا نمبر دے سکتا ہوں تاہم وزارت قانون کا لائحہ عمل نہیں بتا سکتا۔ وقت آنے پر سب بتاؤں گا۔‘
وزیر قانون سے پوچھا گیا کہ کیا وزارت قانون میں کشمیر کے معاملے کو عالمی عدالت انصاف لے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں تو انھوں نے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
اس سوال پر کہ وزیراعظم سے غیر ملکی ماہرینِ قانون کی ملاقات آپ نے کرائی تھی، فروغ نسیم نے کہا کہ انھوں نے ایسی کوئی ملاقات نہیں کرائی اور نہ ہی ان کے علم میں ایسی کوئی ملاقات ہے۔
دوسری جانب وزیر قانون نے وزارت خارجہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اور انھیں کشمیر کے معاملے سے متعلق قانونی امور پر بریف کیا۔ وزارت قانون کے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیر قانون نے وزیر خارجہ کو بتایا ہے کہ پاکستان کے لیے انڈیا کے زیر انتطام کشمیر کا معاملہ عالمی عدالت انصاف لے جانے میں کئی قانونی پیچدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ انڈیا نے اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف کے دستخط نہیں کیے اس لیے وزارت قانون نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل میں موثر سفارت کاری کے ذریعے سلامتی کونسل کی جانب سے معاملہ عالمی عدالت انصاف کو بھجوائے جانے کی کوشش کرے۔
حکام کے مطابق اگر سلامتی کونسل عالمی عدالتی انصاف کو معاملہ بھجوائے تو عدالت ایک ایڈوائزری جاری کر سکتی ہے جس پر انڈیا کو عملدرآمد کرنا ہوگا۔
وزیر قانون سے ملاقات کے بعد وزیرخارجہ کے دفتر سے جاری ہونے والے مختصر اعلامیے میں شاہ محمود قریشی کا موقف بھی بدلا ہوا نظر آیا۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان انڈیا کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ ہر میسر فورم پر اٹھائے گا۔‘
اس صورتحال پر پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن شاہ نواز رانجھا نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کشمیر کے معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کے معاملے پر خود تذبذب کا شکار ہے۔
’وزارت قانون کو چاہیے کہ وہ پہلے دیکھ لے کہ کیا یہ معاملہ قابل سماعت بھی ہے یا نہیں؟ جہاں تک میرا خیال ہے پاکستان اور انڈیا دونوں نے جنگی جرائم سے متعلق ٹریبونل کی مکمل توثیق نہیں کی تھی کیونکہ اس کے تحت تو فوجی حکام کو سزائیں ہونا تھیں۔‘
محسن رانجھا نے کہا کہ وزیر خارجہ نے اعلان کرنے میں جلدی کرکے وزارت قانون کا کام مشکل بنا دیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’مودی سے ملوں گا‘ ٹرمپ نے کشمیر پر دوبارہ ثالثی کی پیشکش کر دیNode ID: 429961