انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل ہی وہاں کے باسیوں کو یہ اشارے مل رہے تھے کہ ’کچھ‘ ہونے والا ہے۔ کیونکہ کشمیر کی بڑی شاہراہوں پر سرگرمیاں بگڑتے حالات کا پتہ دے رہی تھیں۔
پاکستان میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ لاہور میں زیر تعلیم ضلع بارہمولہ کے علاقے سوپور سے تعلق رکھنے والے ولید (فرضی نام) کو والدین نے حالات کے پیش نظر چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے ہی پاکستان روانہ کر دیا تھا۔
ولید نے اردو نیوز سے انٹرویو کی حامی تو بھری لیکن ساتھ ہی کہا کہ ان کو میڈیا پر دیکھ کر ان کے خاندان کو تنگ کیا جائے گا اس لیے ان کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ولید نے 3 اگست کی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں داخل ہونے والی ہر گاڑی میں فوجی تھے۔ ’جتنے سویلین تھے وہ پیدل نظر آ رہے تھے۔ کہا جا رہا تھا کہ چالیس ہزار فوج آئی ہے لیکن وہ ایک لاکھ 20 ہزار سے بھی زیادہ تھے۔‘
’چار تاریخ کو میں گھر میں تھا، ہم نے دیکھا کہ لوگ تشویش میں ہیں اشیائے ضروریہ خرید کر جمع کر رہے ہیں۔ مجھے پاپا نے کہا کہ آپ کو جانا چاہیے کیونکہ حالات بگڑ رہے ہیں۔ ‘
ولید سوپور سے جموں اور امرتسر کے راستے 6 اگست کو پاکستان واپس پہنچے۔ تب سے اب تک ان کا اپنے والدین، رشتہ داروں اور دوستوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ اس طرح ان کے والدین کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا بیٹا خیر و عافیت سے پاکستان پہنچ گیا ہے۔
’جب میں چار تاریخ کو گھر سے نکلا تھا تو گھر والوں نے کہا تھا کہ آج ہی (جموں سے) نکل جانا تاکہ تم کل پہنچ جاؤ۔ وہ اس حوالے سے کہا تھا کہ کل سے پھر بات نہیں ہوگی۔ انھیں پتہ بھی نہیں ہے کہ میں ادھر پہنچا ہوں نہیں پہنچا ہوں کدھر ہوں؟ کوئی اٹھا کے تو نہیں لے گیا۔‘
مزید پڑھیں
-
کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ سپریم کورٹ میں چیلنج
Node ID: 429631
پاکستان یا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں میں رہنے والےکشمیری خاندان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بسنے والے اپنے رشتے داروں سے واٹس ایپ پر ہی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اس کو ٹریس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ولید کہتے ہیں کہ اگر لینڈ لائن پر بات کریں تو اگلے دن ہی آئی بی والے گھر آ جاتے ہیں کہ پاکستان سے کال آئی تھی۔
’ان کو پتہ بھی ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا پاکستان میں پڑھ رہا ہے۔ اس کے باوجود ان کو کسی کو گرفتار کرنے کی وجہ کی تلاش ہوتی ہے۔ مطلب وہ کسی بھی بہانے سے اٹھانا چاہتے ہیں۔‘
نوجوان ولید کہتے ہیں کہ پاکستان سے جب وہ واپس چھٹیاں گزارنے گئے تو انھیں ایجنسیوں کی جانب سے تنگ کیا جاتا رہا۔
’ابھی میں رستے میں تھا کہ آئی بی سےکال آئی کہ گھر پہنچتے ہی آ جانا۔ ان سے ملا ان سے بات چیت ہوئی ان کا کہنا تھاکہ تم یہ کرتے ہو وہ کرتے ہوں فلاں سے ملتے ہو وغیرہ وغیرہ۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد این آئی اے نے بلایا، اس کے بعد مقامی ایجنسیوں کو پتہ چلا ان کے پاس گیا۔ میرا فون بھی ٹریسنگ پر رکھا ہوا تھا۔ ’ایسے گھومنا پڑتا تھا جہ کہ جیسے کوئی جرم کیا ہو۔‘
ولید اور ان کا خاندان بھی دیگر کشمیری خاندانوں کی طرح انڈیا کو کشمیر پر قابض سمجھتا ہے۔ وہ انڈیا کے قانون کو بھی نہیں مانتے۔ خاندان کے بیشتر افراد مسلح تحریک کا حصہ ہیں اور اسے اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔
’کشمیر میں مسلح تحریک کے آغاز سے لے کر اب تک میرے خاندان کے آٹھ افراد شہید ہوئے جن میں ایک میرا بھائی، چچا اور چار کزنز شامل ہیں۔‘
ولید کہتے ہیں کہ انڈین فوج کے ہاتھوں مارے گئے ان کے خاندان کے افراد کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا۔ ’یہ ہماری پاکستان کے ساتھ محبت کا عالم ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
کشمیر میں نقل و حرکت پر دوبارہ پابندی
Node ID: 429636