ریاستی میڈیا کے مطابق ’نئے ہتھیاروں‘ کے تجربات کی نگرانی خود کم جونگ اُن نے کی ہے۔ فوٹو: اےا یف پی
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے تازہ میزائل تجربے سے خوش نہیں ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس میں جی سیون اجلاس کے لیے موجود صدر ٹرمپ نے اتوار کو شمالی کوریا کے میزائل تجربے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔
اس سے قبل شمالی کوریا کے ریاستی میڈیا نے کہا تھا کہ ملک کے سربراہ کم جونگ اُن کی نگرانی میں ’نئے تیار کردہ ہتھیاروں‘ کا تجربہ کیا گیا ہے۔ ریاسی میڈیا نے ان ہتھیاروں کو ’سپر لارج راکٹ لانچر‘ قرار دیا ہے۔
جنوبی کوریا کی فوج نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کی جانب سے سنیچر کو کم فاصلے تک مار کرنے والے دو بلیسٹک میزائلوں کا تجربہ کیا ہے تاہم شمالی کوریا نے اسے میزائل تجربہ قرار دیتے ہوئے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
شمالی کوریا کی جانب سے گذشتہ چند ہفتوں کے درمیان ایسا ساتواں تجربہ کیا گیا ہے جس کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے یہ اقدام احتجاج کے طور پر ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب جنوبی کوریا اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقیں گذشتہ ہفتے ہی ختم ہوئی ہیں۔ شمالی کوریا نے ان مشقوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنے خلاف قرار دیا تھا۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ نئے میزائل تجربات سے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان متوقع مذاکرات متاثر ہوں گے۔
نئے تجربے کے متعلق شمالی کوریا کے رہنما کم جون ان نے کہا ’ یہ ایک بڑا ہتھیار ہے، جو اپنے ہدف تک پہنچا ہے۔‘
کہا جا رہا ہے کہ اس سے قبل بھی کم جونگ اُن نے دو میزائلوں کے تجربات کی نگرانی خود کی تھی۔
شمالی کوریا کے اس اقدام کے بعد سنیچر کو جنوبی کوریا کی جانب سے قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا ہے۔
جنوبی کوریا کی حکومت نے کہا ہے کہ ’نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے ارکان کا اس بات پر اتفاق تھا امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر شمالی کوریا کو واپس لانے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ سفارتی کوششیں جاری رکھنی چاہیے تاکہ کورین خطے سے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے مقصد کو حاصل کیا جاسکے لیکن اب مذاکرات جلد بحال ہونے کے امکان بہت کم ہیں۔
واضحہ رہے گذشتہ جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے شمالی اور جنوبی کوریا کی سرحد پر ملاقات کی تھی بات چیت کا جاری رکھنے اور ایک ساتھ کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر کہا تھا کہ وہ کم جونگ ان کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت بھی دیں گے۔
وہ پہلے امریکی صدر ہے جو شمالی کوریا گئے۔
امریکہ کے سابق صدور جمی کارٹر اور بل کلنٹن نے شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ کے دورے کیے ہیں تاہم یہ دورے اس وقت ہوئے جب وہ حکومت میں نہ رہے تھے۔
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے رواں سال اپریل میں کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ رک جانے سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات کے تیسرے دور کے لئے تیار ہیں مگر یہ تب ہی ممکن ہو گا جب امریکہ اپنا رویہ ٹھیک کرے۔
کم جونگ ان نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکی صدر کے ساتھ ان کے ذاتی مراسم بہت اچھے ہیں اور وہ امریکہ کو رواں سال کے آخر تک کا وقت دیتے ہیں کہ وہ اپنا رویہ درست کر لے۔
واضح رہے کہ دونوں ممالک کے سربراہان میں مذاکرات کا پہلا دور گذشتہ برس سنگاپور میں ہوا تھا۔ رواں سال فروری میں ہنوئی میں ہونے والا دوسرا دور ہتھیاروں کے معاملے پر آ کر بے نتیجہ ختم ہو گیا تھا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے حکام اپنی اہم ایٹمی تنصیب گاہ کو بند کرنے کے بدلے میں ملک سے معاشی پابندیاں مکمل طور پر اٹھانے کا مطالبہ کر رہے تھے لہٰذا اس مطالبے نے انہیں مذاکرات سے علیحدہ ہونے پر اکسایا۔ تاہم شمالی کوریا نے مذاکرات کے خاتمے کی اس وجہ کو متنازعہ قرار دیا تھا۔