Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ اور شمالی کوریا: مذاکرات کا امکان

شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ رک جانے سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے امکانات زیادہ ہو گئے۔ 
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات کے تیسرے دور کے لئے تیار ہیں مگر یہ تب ہی ممکن ہو گا جب امریکہ اپنا رویہ ٹھیک کرے۔
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا پر ہفتے کو نشر ہونے والے بیان میں کم جونگ نے کہا کہ امریکی صدر کے ساتھ ا±ن کے ذاتی مراسم بہت اچھے ہیں اور وہ امریکہ کو رواں سال کے آخر تک کا وقت دیتے ہیں کہ وہ اپنا رویہ درست کر لے۔
انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ ایک ایسے معاہدے کی کوشش کریں جو ’جائز‘ ہو اور دونوں ممالک کے لئے قابلِ قبول ہو۔
کم جونگ کے اس بیان کے ردِ عمل میں امریکی صدر نے بھی اپنے ایک تازہ ٹویٹ میں شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کا تیسرا دور شروع کرنے کے امکانات ظاہر کئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ 'میں اس بات سے متفق ہوں کہ میرے اور کم جونگ کے ذاتی تعلقات بہت اچھے ہیں۔ مذاکرات کا تیسرا دور بھی شروع ہونا چاہیے تاکہ ہمیں یہ بخوبی اندازہ ہو سکے کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔'
انہوں نے اپنے ٹویٹ میں مزید کہا کہ 'کم جونگ کی قیادت میں شمالی کوریا غیر معمولی معاشی ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ دن جلد آ سکتا ہے جب شمالی کوریا پر سے پابندیاں ہٹائی جا سکیں گی اور اسے د±نیا کی کامیاب ترین قوموں میں شامل ہوتے دیکھا جا سکے گا۔'
واضح رہے کہ دونوں ممالک کے سربراہان میں مذاکرات کا پہلا دور گزشتہ برس سنگاپور میں ہوا تھا۔ رواں سال فروری میں ہنوئی میں ہونے والا دوسرا دور ہتھیاروں کے معاملے پر آ کر بے نتیجہ ختم ہو گیا تھا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے حکام اپنی اہم ایٹمی تنصیب گاہ کو بند کرنے کے بدلے میں ملک سے معاشی پابندیاں مکمل طور پر اٹھانے کا مطالبہ کر رہے تھے لہٰذا اس مطالبے نے انہیں مذاکرات سے علیحدہ ہونے پر اکسایا۔ تاہم شمالی کوریا نے مذاکرات کے خاتمے کی وجوہ کے اس امریکی بیان کو متنازعہ قرار دیا تھا۔
خبررساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے جنوبی کوریا کی کیوگنام یونیورسٹی میں خدمات سرانجام دینے والے کم ڈنگ یپ نے خیال ظاہر کیا کہ کم جونگ کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لئے ہمیشہ تیار نہیں رہیں گے بلکہ اس کے بجائے وہ دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بڑھانے پر غور کر سکتے ہیں۔
 

شیئر: