پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کسانوں اور زمینداروں نے ٹماٹر کی قیمت میں کمی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سینکڑوں کلو گرام ٹماٹر سڑکوں پر پھینک دیے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں بیج بونے سے لے کر مارکیٹ تک پہنچانے تک ٹماٹر کا ایک کلو 25 روپے میں پڑ رہا ہے مگر ہمسائیہ ممالک سے درآمد کی وجہ سے کسان یہی ٹماٹر ایک روپے سے لے کر پانچ روپے فی کلو فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
زمیندار ایکشن کمیٹی قلعہ سیف اللہ کے چیئرمین عبد اللہ جان میرزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ملک بالخصوص پنجاب اور سندھ کی سبزی منڈیوں میں ٹماٹر کی قیمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلوچستان کے زمینداروں نے مارچ میں ٹماٹر کے بیج بوئے اور چھ ماہ کی محنت کے بعد لاکھوں ٹن کی فصل تیار کی اور اسے پنجاب اور سندھ کی مارکیٹوں تک پہنچایا تو افغانستان اور ایران سے ٹماٹر کی درآمد شروع کردی گئی جس کی وجہ سے ’ہمارے ٹماٹر کوڑیوں کے دام فروخت ہو رہے ہیں‘۔
’سولہ کلو گرام کا ایک کریٹ 80 روپے میں بھی فروخت نہیں ہورہا۔ ہمارے ٹماٹر 10 روپے فی کریٹ کے حساب سے بھی نیلام ہوئے ہیں جبکہ صرف لکڑی کے ایک خالی کریٹ کی قیمت 65 روپے ہے۔ اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے ہم تباہ ہورہے ہیں۔ ہم نے پچھلے سال اگست میں بھی اسی طرز کا احتجاج کیا مگر اس کے باوجود بھی ہمارا معاشی قتل نہیں روکا گیا۔‘
عبداللہ جان میرزئی کے مطابق بیج بونے سے لیکر مارکیٹ تک پہنچانے تک ایک کریٹ ٹماٹرپر زمیندار کا 380 روپے سے لے کر 400 روپے تک خرچہ آتا ہے مگر مارکیٹ کی موجودہ صورتحال میں زمینداروں کو منافع ملنا تو دور کی بات فصل پر لگنے والے اخراجات تک پورے نہیں ہو رہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف قلعہ سیف اللہ میں گزشتہ سال ٹماٹر کی پیداوار 60 سے70 ہزار ٹن رہی۔ اس سال بھی اتنی ہی پیداوار ہوئی ہے۔ اس سے زمینداروں کے نقصانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ احتجاج بلوچستان کے شہر قلعہ سیف اللہ میں زمیندار ایکشن کمیٹی کی جانب سے کیا گیا جس میں کسانوں اور زمینداروں کے علاوہ سبزی منڈی میں پھلوں اور سبزیوں کا کاروبار کرنے والے تاجر اور ایجنٹ بھی شریک ہوئے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ افغانستان، ایران اور انڈیا سے ٹماٹر کی درآمد پر پابندی لگا کر کسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
قلعہ سیف اللہ میں پھلوں اور سبزیوں کی خرید و فروخت کرنے والے تاجروں کی یونین کے سربراہ حاجی محمد صادق خان جوگیزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ بلوچستان کے کسانوں اور زمینداروں کے ساتھ یہ زیادتی آج سے نہیں سنہ 1997 سے کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی بلوچستان میں ٹماٹر، پیاز اور سیب کی فصلیں تیار ہوجاتی ہے تو ہمسایہ ممالک سے ان سبزیوں اور پھلوں کی درآمد شروع کر دی جاتی ہیں۔
’طلب سے زیادہ ٹماٹر‘
انہوں نے کہا کہ طورخم، میرانشاہ اور چمن کے راستے افغانستان اور تفتان کے راستے سے ایران سے روزانہ بلا روک ٹوک سینکڑوں گاڑیاں ٹماٹر درآمد کئے جارہے ہیں۔ حکومتی سطح پر طلب اور رسد کا کوئی خیال نہیں کیا جارہا جس کا خمیازہ زمینداروں اور کسانوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ اس وقت طلب سے چار گنا زیادہ ٹماٹر مارکیٹ میں موجود ہیں۔
حاجی محمد صادق کے مطابق ٹماٹر کی فصل تیار کرنے میں زمینداروں کا بھاری خرچہ ہوتا ہے۔ ’حکومتی سطح پر ہمیں تین سالوں سے کوئی بیج نہیں دیئے جارہے۔‘ زمین کمزور ہونے کی وجہ سے ہمیں کیلیفورنیا سے درآمد شدہ ہائبریڈ بیج خریدنے پڑتے ہیں۔ ہائبریڈ بیج کا 100 گرام سات ہزار سے 40 ہزار روپے میں ملتا ہے۔ کھاد، ادویات اور ڈیزل بھی بہت مہنگا ہے۔
’بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کسان ڈیزل جنریٹر سے ٹیوب ویل چلارہے ہیں۔ کرایہ اور بار دانہ کے اخراجات شامل کئے جائیں تو ٹماٹر بیج کے بونے سے مارکیٹ تک پہنچانے تک ایک کلو ٹماٹر پر 25 روپے خرچہ آتا ہے جبکہ ملک کی بڑی سبزی منڈیوں میں ہم سے ایک کلو ٹماٹر پانچ روپے میں بھی نہیں خریدا جارہا۔‘
حاجی محمد صادق نے بتایا کہ ہمارے ہاں اسٹوریج کا کوئی بندوبست نہیں اس لئے خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر جس دن ٹماٹر سبزی منڈی تک پہنچائیں اسی دن جو بھی قیمت مل جائے تو فروخت کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال سے تنگ آکر زمیندار اور کسان زراعت چھوڑ رہے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ دوسرا کوئی کاروبار بھی نہیں۔ روزگار کے مواقع نہیں۔ پورے بلوچستان میں کوئی فیکٹری نہیں۔
زمیندار ایکشن کمیٹی کے ضلعی سربراہ حاجی عبداللہ جان میرزئی نے بتایا کہ ایسے بھی زمینداروں ہیں جنہوں نے سود پر قرض لیکر فصل تیار کی مگر اب فائدہ پہنچنے کی بجائے مزید نقصان ہورہا ہے۔ ایک زمیندار نے 180 کریٹ ڈیرہ غازی خان تک پہنچائے تو کوئی منافع ملنے کی بجائے انہیں صرف کرایہ اور کمیشن کی مد میں 32 ہزار روپے گھر سے منگوانا پڑگئے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب سے آنے والے خریدار ٹماٹر کی نیلامی مقامی مارکیٹ میں نہیں لگاتے بلکہ انہیں پنجاب پہنچانے کے بعد نیلامی کرتے ہیں اور من مانے نرخ مقرر کئے جاتے ہیں۔ ہمارے پاس کم قیمت پر ہی ٹماٹر فروخت کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔
’ہمارا مطالبہ ہے کہ مقامی سبزی منڈی میں ہی نیلامی کی جائے۔ حکومت مقامی سطح پر ٹماٹو پیسٹ کی انڈسٹری اور کولڈ اسٹوریج قائم کرنے میں مدد فراہم کرے۔ ہمسائیہ ممالک سے ان پھلوں اور سبزیوں کی درآمد پر پابندی لگائی جائے جو ملک میں کاشت کی جاتی ہیں۔‘
عبداللہ جان میرزئی کے مطابق بلوچستان کے 70 فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے مگر اس کے باوجود حکومت زراعت سے وابستہ افراد کی کوئی مدد نہیں کر رہی۔ ’دس دس دن تک ہماری بجلی بند رکھی جاتی ہے۔ بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات ہم خود خرید رہے ہیں۔‘ کوئی سبسڈی نہیں دی جارہی۔‘
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خشک سالی کی وجہ سے لوگوں نے سیب اور دوسرے پھلوں کی پیدوار چھوڑ کر متبادل کے طور پر انگور، ٹماٹر، پیاز،گاجر اور مرچ کی فصلیں کاشت کرنا شروع کردیں مگر حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور پالیسیوں کی وجہ سے زمیندار ررل رہے ہیں۔
مزید پڑھیں