وزیراعظم عمران خان نے عہدہ سنبھالا تو اس وقت سے امید لگا لی گئی کہ ملک میں تبدیلی آئے یا نہ آئے پاکستان کرکٹ کے انفراسٹرکچر میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ ایک سال تک تو ایسا دیکھنے کو نہیں ملا مگر پھر وزیراعظم کے قریبی دوست اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے ورلڈ کپ میں کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ بدل دیا۔
ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کر دیا گیا ہے اور صرف چھ ٹیمیں ملک بھر سے ڈومیسٹک میں کھیل رہی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کی دوڑ میں پوزیشن بہتر کرنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے ’کوکا بورا‘ گیند کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے۔
پاکستان کرکٹ حکام کا ماننا ہے کہ آسٹریلیا میں بننے والی اس گیند سے کھیل کر کھلاڑیوں کی صلاحتیں نکھر کر سامنے آئیں گی۔
کوکابورا وہ گیند ہے جسے اس وقت انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے علاوہ دنیائے کرکٹ کے تقریباً تمام ممالک انٹرنیشنل مقابلوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں پہلے سے استعمال کی جانے والی ڈیوک یا گریس بال سے موازنہ کیا جائے تو کوکابورا گیند کم سوئنگ ہوتی ہے۔ اس کا وزن بھی قدرے زیادہ یعنی 156 گرام ہے جس کی وجہ سے بولرز کو اب زیادہ محنت کرنا ہو گی۔
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر حسن رضا نے ڈومیسٹک کرکٹ میں کوکابورا متعارف کروائے جانے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس گیند سے بولرز کی صحیح رفتار اور بال کو سوئنگ کرنے کی صلاحیت کا پتا چلے گا کیونکہ کچھ اوورز کے بعد یہ گیند رف ہو جاتی ہے مگر اس کی ایک طرف کو صاف اور چمکدار رکھ کر ریورس سوئنگ کا بھر پور فائدہ بھی بولر کو ہوگا جبکہ گیند رف ہونے کی وجہ سے بیٹسمین کو بھی لمبی اننگز کھیلنے کا موقع ملے گا۔
ان کے مطابق ’اب فاسٹ بولرز کو زیادہ محنت کرنا ہوگی، یہی دنیا میں چل رہا ہے۔ اب وہ باتیں سننے کو نہیں ملیں گی جس میں بولرز ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ کی گیند میں فرق کو اپنی پرفارمننس سے جوڑ دیتے تھے۔‘
دوسری جانب سپورٹس بزنس سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان میں کوکابورا استعمال ہوئی لیکن ایک گیند کی قمیت 23 ہزار روپے ہے اور ڈومیسٹک میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے یہ کافی مہنگا سودا ثابت ہوا جس کی وجہ سے زیادہ عرصہ نہیں چل سکی۔
خیال رہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں استعمال کے لیے کوکابورا کو آسٹریلیا سے درآمد کیا جائے گا۔