کیا آپ بھی ٹی وی ڈرامہ دیکھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ میں ٹی وی بہت کم دیکھتا ہوں یا مجھے پاکستانی ڈرامے میں قطعی دلچسپی نہیں یا پھر یہ کہ ہاں میں فلاں فلاں ڈرامہ دیکھ رہی ہوں لیکن کیا آپ نے غور کیا، آج کل ڈراموں کا اختتام کیسے ہوتا ہے؟ منفی کردار خودکشی کر لیتا ہے یا پھر ویمپ اور ولن کو پاگل ہوتے دکھایا جاتا ہے۔
یوں تو اس قسم کے اختتام شدید بیزار کن ہیں البتہ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہی کہ پاکستانی ڈرامہ دیکھنا پاگل پن ہے یا ڈرامہ دیکھنے کے بعد خودکشی کر لینی چاہیے۔ بلکہ میں نے تو آج دو اہم پہلوؤں کی جانب توجہ دلانے کے لیے قلم اٹھایا ہے۔ میں پاکستانی ڈراموں کی مداح ہوں، یقین کیجیے میں نے بہت سے پاکستانی ڈرامے دیکھے ہیں، نئے پرانے، حقیقی زندگی سے قریب، تو کہیں افسانوی ڈرامہ بازیوں سے بھرپور، کچھ تاریخی اور کچھ ایسے قابل فراموش کہ آخری قسط دیکھتے ہی بھلا دی اور کچھ یوں یادگار بنے کہ مکالمے بھی زبانی یاد ہوگئے۔
مزید پڑھیں
-
’کل صبح کیمرہ لے کر اخبار کے دفتر آ جانا‘Node ID: 434246
-
اقلیتوں سے زیادہ گائے محفوظ ہےNode ID: 434386
-
کیا کلیم الدین کے معنی ’دین کا کلام‘ ہے؟Node ID: 434566
-
'کالج کی یادوں کا وزنی بوجھ'Node ID: 434596
کچھ ڈراموں کو دیکھ کر افسوس ہوا اور کچھ یوں پسند آئے کہ پہلی بار دیکھنے کا مزہ لینے سے محروم ہو جانے کا افسوس دل میں رہ گیا۔ میں دراصل ڈرامہ کی حقیقی مداح بھی ہوں اور ناقد بھی۔ میری نظر میں ڈرامہ اور فلم، آرٹ ہے، ایسا آرٹ جسے عام افراد کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ منفی۔ مانا کہ ہر ڈرامہ اور ہر فلم خوشی اور مسرت کا ذریعہ نہیں ہوسکتی اور معاشرے کے منفی پہلو اور سیاہ حقائق کو ہمیشہ شیرینی بنا کر یا دلفریب مناظر میں قید کر کے پیش نہیں کیا جاسکتا لیکن چند منفی عناصر جو فی زمانہ قابل توجہ ہیں، آرٹ اور میڈیا کے ذریعہ ان کا رومانوی پرچار کرنا بھی مناسب نہیں۔
میں بات کر رہی ہیں، خودکشی کے المیہ کی، جو پاکستانی ڈرامہ کا ایک لازمی اختتام بنتا جارہا ہے اور جسے محبت میں ناکامی اور پچھتاوے کے بعد واحد راستہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
بہت سے ڈرامے، سوپ اور طویل دورانیہ کے کھیل دیکھنے کے بعد یہ کہنا ضروری ہے کہ آج کل پاکستانی ڈراموں میں خود کشی کے اندوہناک المیہ کو بہت زیادہ پیش کیا جا رہا ہے۔ خودکشی، ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے، جو صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں قابل تشویش قرار دیا جا رہا ہے۔ البتہ پاکستانی ڈرامہ میں خود کشی کو رومانوی انداز میں پیش کرنا قابل فکر امر ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق، ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ افراد اپنی زندگی ختم کرلیتے ہیں، خود کشی کی کوشش کرنے والوں کی تعداد علیحدہ ہے۔ خود کشی سے یوں تو صرف ایک زندگی کا خاتمہ ہوتا ہے لیکن اس اندوہناک واقعہ کے اثرات صرف ایک فرد تک محدود نہیں، گھر، محلہ، دوست، احباب اور پیچھے رہ جانے والا ہر شخص اس سے متاثر ہوتا ہے۔ 2016 ءمیں 15سے 29 برس کے نوجوان افراد میں موت کا دوسرا اہم سبب خودکشی تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج نوجوان افرادکا المیہ ’’خود کشی‘‘ ہے۔ اس صورتحال میں کیا یہ مناسب ہے کہ ہر تیسرے ڈرامہ کا اختتام خود کشی ہو؟ یا ڈرامہ میں مسائل کا آخری حل یا تکلیف سے نجات کے واحد راستہ کے طور پر خودکشی کی جانب اشارہ کیا جائے؟
غور کیجیے، آپ خود یہ جان لیں گے کہ پاگل پن اور خودکشی پاکستانی ڈراموں کا اختتامی حصہ ہے۔ کوئی بھی ڈرامہ دیکھیے، اختتام میں ولن یا منفی کردار پچھتاوا اور افسردگی کے ساتھ یا تو خودکشی کرتا نظر آئے گا یا پھر یوں دکھایا جائے گا کہ اپنے برے اعمال کے نتیجے میں مذکورہ کردار نے ذہنی توازن کھو دیا۔ یہ عام باتیں نہیں، پاگل پن برے اعمال کا نتیجہ نہیں اور نا یہ مناسب سوچ ہے کہ جو لوگ برا کام کرتے ہیں، ان کا انجام خود کشی اور پاگل پن ہوتا ہے۔ البتہ پاکستانی ڈرامہ میں اس قسم کی سوچ کا پرچار عام ہے۔ محبت میں ناکامی، ناامیدی ، دکھ کا مداوا، منصوبہ میں ناکام ہونے اور شدید پچھتاوے میں مبتلا ہوجانے کے بعد جب کوئی مخصوص کردار خودکشی کرتا نظر آتا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ کیا کوئی تکلیف، کوئی گناہ، کوئی پچھتاوا یا ناکامی، خودکشی کے لیے درست بنیاد فراہم کرتی ہے؟ کیا ڈرامہ میں ظاہر کی جانے والی یہ تاویل درست ہے کہ اس نے برا کام کیا اور برے کام کا انجام خودکشی ہی ہوتا ہے؟
یہ سوچ کس طرح ایک ڈرامہ کا حصہ بن سکتی ہے؟ کیا یہ تاویل عوامی سوچ مرتب کرنے کا سبب نہیں؟ کہ جو لوگ برا کام کریں، ان کو مرجانا چاہئے، ان کا خودکشی کرلینا درست ہے؟ یا منفی اعمال پاگل پن کا سبب بنے؟ ذہنی اور جذباتی کشمکش، نامساعد حالات، صدمات کسی فرد کا ذہنی توازن بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں، لیکن ڈرامے میں نفسیاتی اور ذہنی بیماری محض ”برے افراد“ کے ”برے اعمال“ کا نتیجہ بنا کر پیش کی جاتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں ذہنی مسائل کو شخصی خرابی کا نتیجہ خیال کیا جاتا ہے۔
یہ سوال اکثر ابھرتا ہے کہ ہمارا معاشرہ منفی احساسات اور جذبات سے بھرپور کیوں ہوتا جارہا ہے، اس اہم سوال کا جواب سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ معاشرہ، عوام سے بنتا ہے اور عوامی جذبات معاشرے کے اچھے اور برے عناصر کا تعین کرتے ہیں، میڈیا یعنی کتاب، ریڈیو، ٹی وی، فلم، ڈرامہ، اشتہار، موبائل، انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور اخبارات، یہ سب چیزیں عوامی استعمال اور عوامی خیالات کا پرچار کرنے کے لیے ہیں اور ان ہی کے ذریعہ عوامی سوچ بھی مرتب کی جاتی ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ میڈیا ہمیں متاثر کررہا ہے، درست نہیں بلکہ یہ بھی خیال رہے کہ ہم اور ہمارا انداز فکر، طرز عمل بھی میڈیا کا خاص طرز تشکیل دینے کا سبب ہے۔
میڈیا پر ہر دم منفی رجحانات پر مشتمل مواد کا چرچا ہوگا تو مثبت رویہ برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہوں۔ دنیا بھر میں خود کشی کی شرح میں زبردست اضافہ ہورہا ہے خاص طور پر مقبول افراد کی خود کشی اور اندوہناک اموات، عوامی رجحان میں اضافے کا اہم سبب ہیں۔ معروف فنکار عوام کے لیے کسی مشعل راہ سے کم نہیں، ان کو ہر عمر اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پسند کرتے ہیں، ان کے عمل کی پیروی کی جاتی ہے، ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے ادا کیے ہوئے کردار یا ان کی حقیقی زندگی میں پیش آنے والے واقعات عام افراد کی زندگی پر اثر انداز نہ ہوں؟
مقبول ترین ٹی وی ڈرامہ ہمسفر میں عتیقہ اوڈھو کا کردار بھی ایسا ہی ہے۔ وہ بیٹے کی ازدواجی زندگی برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے، کئی سال کی جدائی کا سبب بنتی ہے اور جب ہر قسم کے ڈرامائی حالات کا سامنا کرنے کے بعد محبت کی فتح ہوتی ہے تو ساس کا کردار شدت غم اور ناکامی سے پاگل ہوجاتا ہے۔
یہ تو خیر محض مثال ہے لیکن لاتعداد ڈراموں کا اختتام اسی طرز پہ کیا جارہا ہے اور پھر صرف پاگل پن پہ ہی اکتفا نہیں، خود کشی کے مناظر جس قدر ہمارے ٹی وی ڈراموں میں دکھائے جارہے وہ پریشان کن ہے۔ اب دیکھ خدا کیا کرتا ہے میں مرکزی کردار نبھانے والے دانش تیمور کا کردار بھی اپنے اعمال پر نادم ہوکر خودکشی کرلیتا ہے۔ ڈرامہ کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک طاقتور خاندان کا بیٹا اپنی ہی کمپنی کی ملازمہ کو ہوس کا نشانہ بناتا ہے، بدنامی اور لڑکی کے جانب سے مقدمے اور پریشانی سے بچنے کے لیے شادی کا دھوکہ کرتا ہے، پھر لڑکی کے خاندان پر ظلم کرتا ہے، جھوٹا مقدمہ بناتا ہے، اس کے بعد کچھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ وہ پچھتاوے کا شکار ہوجاتا ہے، پھر اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش اور ناکامی، ناامیدی کا سامنا ہونے پر خودکشی۔ ان تمام واقعات میں انصاف، قانون، اخلاقیات کا کوئی گزر نہیں، البتہ محض منفی سوچ کا اظہار نظر آتا ہے۔ محبت تم سے نفرت ہے، عائزہ خان کے کردار ماہین کی خودکشی پر اختتام پذیر ہوتا ہے، غلط فہمی کی بنیاد پر بچھڑنے والے دو افراد جب کئی سال بعد ملتے ہیں تو پچھتاوا اور افسوس ان کے درمیان دیوار بن جاتا ہے، لیکن پھر کیا ہوتا ہے؟ عائزہ خان کا کردار ماہین، ڈرامے کے دوسرے حصہ میں واضح طور پر ذہنی مسائل کا اظہار کرتا نظر آتا ہے، البتہ اسے عشق تصور کرکے ذہنی مسائل کو رومانوی رنگ دے دیا جاتا ہے اور ڈرامے کے اختتامی مناظر میں ماہین شدت غم، محبت میں مایوسی ، انتظار اور کرب کو واضح کرنے کے لیے شادی کے جوڑے میں خودکشی کرلیتی ہے۔
میرا سوال ہے کہ کسی ڈرامہ میں یہ کیوں نہیں دکھاتے کہ خودکشی اور پاگل پن کے بعد پیچھے رہ جانے والا خاندان کس کرب سے گزر رہا ہے؟ کوئی کردار منفی ہو یا قابل نفرت، گناہ گار ہو یا پشیمان، خودکشی اور پاگل پن اس کا منطقی انجام نہیں ، اور اس سوچ کو فروغ دینے والے ڈراموں سے میں بیزار ہوں۔ غالباً ہمارے ڈرامہ مصنفین، خودکشی اور پاگل پن پر ڈرامہ کا اختتام کرنے کے بعد یہ خیال کرتے ہیں کہ ہر مسئلہ حل ہوگیا۔ ان کے لیے یہ اختتام ایک طرح سے آسان ہے، انصاف اور قانون سے بالاتر رہتے ہوئے، محض آفاقی اصول کا پرچار کرنا کہ برائی کا انجام برائی ہوگا اور نیکی کی جیت ہوگی، یہ بات بڑی ہی پرکشش لگتی ہے کہ ایک دن اچھائی کی جیت ہوگی۔ لیکن مضحکہ خیزی تو دیکھیے کہ اس آفاقی اصول کا وقوع پذیر ہونا، وقت کے ذمہ ہے، یعنی مکافات عمل کے تحت، آپ کے ساتھ پیش آنے والی ہر برائی کا انصاف ہوجائے گا۔ قانون، انصاف کچھ نہیں، کسی نے خود کشی کرلی، کوئی پاگل ہوگیا، بس، ذمہ داری ختم۔ جو بھی تکلیف مل رہی ہے، اس پر صبر کیجیے، برداشت کا مظاہرہ کیجیے، ایک دن آئے گا جب آپ کا دشمن یا تو پاگل ہوجائے گا یا خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ یہ پیغام میں نہیں دے رہی، کم و بیش تمام ڈرامے جو ہمارے ٹی وی چینلز کی زینت بنے ہوئے ہیں، یہ ان کا پیغام ہے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں