کلیم الدین سے ہماری دوستی ربع صدی پرانی ہے۔ شخصیت میں توازن اور طبیعت میں تواضع ان کی پہچان ہے۔ موصوف کم عمری ہی سے ’فارغ البال‘ ہیں، اس لیے انہیں اکثر پتہ نہیں چلتا کہ منہ کہاں تک دھونا ہے اور مسح کہاں تمام کرنا ہے۔ خیر سے ڈبل ایم۔اے کرنے کے بعد ڈبل حج بھی کرلیا ہے۔ ایسے میں ہمارے لیے فیصلہ مشکل ہوگیا ہے کہ وہ صوفی بڑے ہیں یا صحافی۔
ایک دن کہنے لگے: ’اگر ضیاء الدین کا مطلب ’دین کی روشنی‘ ہے اور قمرالدین کا مطلب ’دین کا چاند‘ ہے تو کیا کلیم الدین کے معنی ’دین کا کلام‘ ہیں؟ ۔۔۔۔ہمیں تو یہ نام اور اس کے معنی سمجھ نہیں آئے‘۔
مزید پڑھیں
-
الفاظ کے الٹ پھیر کا دلچسپ مطالعہNode ID: 430116
-
بھلا Roy کا بادشاہ سے کیا لینا دینا ہے!Node ID: 431376
-
نذرانوں کے بدلے فیض بانٹنے والے وزیرNode ID: 432391
-
’سری نگر‘ کے نام کے پیچھے کیا راز ہے؟Node ID: 433476
ہم نے کہا ’جس ’ڈائریکشن‘ میں آپ جا رہے ہیں اس کے مطابق تو ’کلیم الدین‘ کے معنی واقعی عجیب معلوم ہوتے ہیں۔ مگر ہمارا محتاط اندازہ ہے کہ کلیم الدین کا مطلب ’دین کا ترجمان‘ ہے۔ الحاج ہونے کے بعد یہ نام آپ کو ’سوٹ‘ بھی کرتا ہے کہ اب آپ ’اسم بامُسمّیٰ‘ ہوگئے ہیں‘۔
بولے: یہ ’اسم بامُسمّیٰ‘ کیا ہوتا ہے؟‘
اس کا مطلب ہے ’جیسا نام ویسا کام‘ مثلاً ایک مشہور درخت کو خوب بلند و بالا ہونے کی وجہ سے ’دیو دار‘ کہتے ہیں۔ اس میں’دیو‘ وہی ہے جسے انگریزی میں giant کہتے ہیں۔ جب کہ ’دار‘ درخت کو کہتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ’دیو دار کا درخت‘ بھی کہتے ہیں، ظاہر ہے کہ ’دار‘ کے معنی ہی درخت کے ہیں ایسے میں ’درخت‘ بولنا یا لکھنا اضافی ہے۔
اپنے ’بے ریش‘ سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے : ’مگر ’دار‘ پر تو پھانسی دی جاتی ہے۔ وہ فیضؔ نے کہا ہے ناں :’دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے‘۔

ہم نے کہا: ’پہلی بات تو یہ سمجھ لو کہ ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معنی ہو سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جملے کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہی کچھ ’دار‘ کے ساتھ بھی ہے۔
ایک ’دار‘ عربی زبان کا ہے جس کے معنی میں ’گھر، محلہ اور مقام‘ وغیرہ داخل ہیں۔ جسے دارالحکومت، دارالمطالعہ، دارالصحت، دارالاسلام اور دارالامان وغیرہ۔
اتنا سنتے ہی بولے: ’ پھر تو ’دارِارقم‘ کہنا درست نہیں اسے تو ’دارالارقم‘ ہونا چاہیے کیونکہ ’دارِ ارقم‘ کا مطلب تو ’ارقم کا پھانسی گھاٹ‘ ہوا۔
ہم نے کہا: عربی قاعدے کے مطابق تو ’دارالارقم‘ ہی درست ہے تاہم اگر ان عربی الفاظ کو فارسی ترکیب میں بیان کریں تو پھر’دارِ ارقم‘ کہہ سکتے ہیں۔ اب ذرا ’دارِ فانی‘ کی ترکیب پر غور کرو، آپ کے اعتراض کے مطابق تو اسے ’دارالفانی‘ ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے۔ روز مرہ میں اسے ’دارِ فانی سے کوچ کرنا ‘ ہی بولا اور لکھا جاتا ہے۔
پہلے عالم استغراق میں سر ہلاتے رہے پھر یک دم بولے : ’او کے‘۔
ہم نے کہا: ’ لگے ہاتھوں عربی الفاظ کے فارسی استعمال پر ایک واقعہ بھی سن لو۔۔۔ ایک مولانا سے ان کے دو معتقدین ملنے آئے۔ اتفاق سے دونوں کا نام ’جان محمد‘ تھا۔ مولانا نے انہیں ایک ساتھ دیکھا تو خوشی سے پکارا ’ آہا۔۔۔جانانِ محمد‘۔۔۔ یہ سنتے ہی اُن کے قریب بیٹھے ایک صاحب نے تصحیح کی: ’ مولانا عربی قاعدے کے مطابق درست ’جانینِ محمد‘ ہے۔ مولانا جھٹ بولے: ’میں نے فارسی قاعدے کے مطابق کہا ہے‘۔
بات درست بھی ہے کہ فارسی میں ’جان‘ کی جمع ’جانان‘ ہے۔ ایسے میں اس کے عربی اصولِ جمع پر اصرار نامناسب ہے۔
بال پوائنٹ سے کمر کھجاتے ہوئے بولے: ’موضوع پر آؤ ‘۔
