Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کتوں کو مار کر ریبیز سے بچا جاسکتا ہے؟

ریبیز کے تدارک کے لیے اس سے متعلق عوامی آگاہی ضروری ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریبیز کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ آج کے دن اس بیماری کے حوالے سے ملک بھر میں مختلف پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں اور عوام کو ریبیز کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ ریبیز ایک وائرس ہے جو کہ پالتو اور جنگلی جانوروں باالخصوص کتوں کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہو کر سنٹرل نروس سسٹم کو تباہ کر دیتا ہے اگر بروقت علاج نہ کرایا جائے تو دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور متاثرہ فرد کی موت ہو جاتی ہے۔ کتے کے علاوہ یہ بندر، بلی، گیدڑ، لومڑی اور چمگادڑ کے کاٹنے سے بھی انسان کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ ایک سے دوسرے فرد کو منتقل ہونے والا مرض ہے۔

 

طبی ماہرین کے مطابق ہر کتے کے کاٹنے سے ریبیز نہیں ہوتا اگر کتا کاٹ لے تو فوری طور پر معائنہ کریں کہ معمولی خراش ہے یا پھر  کتے کے دانت گوشت تک پہنچ گئے ہیں۔ کتا کاٹ لے تو خود سے ٹوٹکے نہ استعمال کریں بلکہ فوری طور پر ڈاکٹر  کے پاس جا کر ریبیز ویکسین لگوائیں تاکہ اس کے اثرات سے بچا جاسکے۔ اگر ہسپتال دور ہے تو فوی طور پر متاثرہ حصے کو پانی سے دھوئیں یہ اس لیے ضروری ہے کے کتے کے دانتوں سے منتقل ہونے والے جراثیم ختم ہوسکیں، پھر فوری طور پر پٹی باند لی جائے۔
صحت کے شعبہ سے متعلق افراد کے مطابق ریبیز کی بیماری ابتدائی علامات میں بخار اورجانور کے کاٹنے سے متاثرہ مقام پر سنسناہٹ شامل ہو سکتی ہے۔ ان علامات کے بعد پرتشدد سرگرمی، بے قابو اشتعال، پانی کا خوف، جسم کے اعضاء کو ہلانے میں مشکل، ذہنی انتشار اور ہوش کھونا جیسی کوئی ایک یا کئی علامات ہو سکتی ہیں۔
آج کل پاکستان میں اس بیماری پر کافی بات چیت کی جارہی ہے جس کی وجہ کچھ روز قبل صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں ایک 10 سالہ بچے کی موت کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو ہے۔ ان مناظر نے لوگوں کے دل دہلا دیے یہ بچہ کتے کے کاٹنے کے بعد لاپرواہی اور اس کی ویکسین نہ ملنے کے سبب موت کے منہ میں چلا گیا۔ بر وقت علاج سے اس کی زندگی بچائی جا سکتی تھی۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ پہلے بھی اس طرح کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ گزشتہ شام ہی یہ خبر سامنے آئی تھی کہ کاموکی میں آٹھ سالہ بچے کو 20 روز قبل کتے نے کاٹا، بروقت ویکسین نہ ملنے پر اس کی بھی جان چلی گئی۔ لاڑکانہ والے واقعہ کے بعد سندھ حکومت نے بجائے ویکسین فراہم کرنے کے کتوں کو مارنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ کتے مار مہم میں بندوق یا زہر کی گولیوں سے آوارہ کتوں کو مارا جاتا ہے، لیکن سوال ہے کہ کیا کتوں کو مار دینے سے ریبیز کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟

پاکستان کے مختلف حصوں سے کتوں کے کاٹنے کے ہزاروں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ملک بھر میں کئی بار مختلف شہروں میں اس مہم کے تحت کتوں کو مارا گیا۔ ایسے کئی آپریشنز کیے گئے، اس کے باوجود کامیابی نہیں ملی۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیا کیا جائے؟ ریبیز کنٹرول کرنے کے لیے عوامی سطح پر آگاہی بے حد ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کتوں کے لیے بھی تھراپی ہوتی ہے، جسے ٹی این آر یعنی ٹریپ نیچر ریٹرن کہا جاتا ہے۔ یہ جانوروں کو محفوظ رکھنے کا طریقہ کار ہوتا ہے۔
آج کے دن ریبیز کے ساتھ ساتھ ٹی این آر سے متعلق بھی لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ کیسے اپنی کمیونٹی اپنے علاقے میں گلی محلوں کے کتوں اور دیگر ایسے جانوروں کو اس مرحلہ سے گزاریں تا کہ ان معصوم بے زبان جانوروں کو جان سے مارنے کی نوبت نہ آئے۔
نوٹ: مضمون میں درج احتیاطی تدابیر بلاگر نے ماہرین کی تجاویز کی روشنی میں درج کی ہیں، تاہم کتے کے کاٹنے کی صورت میں فوراً اپنے قریبی معالج یا ہسپتال سے رجوع کریں۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: