معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بچوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ فائل فوٹو
سعودی فیملی سیکیورٹی پروگرام کے عہدیدار اور سماجی ماہر عبدالرحمن القراش نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں 45 فیصد بچے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
سبق ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ وزارت سماجی امور کی طرف سے جاری ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ تشدد کا نشانہ بننے والے 74 فیصد بچوں کو والدین کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 14فیصد بچے ایسے ہیں جنہیں بھائیوں، ٹیچروں یا خادماﺅں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اعدادوشمار سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 12 فیصد بچے ایسے ہیں جو اجنبی لوگوں کی طرف سے تشدد کا شکار ہوئے۔
عبدالرحمن القراش نے کہا ہے کہ 2009 سے 2016ء تک 2000 بچوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان بچوں کی تعداد کتنی ہوگی جو تشدد کا نشانہ بنے اور کہیں رپورٹ درج نہیں کرائی۔
ان کا کہناہے کہ تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کے اعدادوشمار کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔ ہمارے معاشرے میں ابھی تک ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بچوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ بچوں کو تشدد کا نشانہ بننے کے اسباب پر غور کیا گیا تو معلوم ہوا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ والدین ہر وقت غصے میں رہتے ہیں۔ گھریلو ناچاقیاں بھی اس کا اہم سبب ہیں۔
انہوں نے بتایا ہے کہ سماجی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ آمدنی سے زیادہ اخراجات، فضول خرچیاں،قرض اور اسی قسم کے دیگر مالی معاملات کی وجہ سے بھی بچوں کو تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ شراب اور منشیات کے استعمال کے علاوہ نفسیاتی امراض کا بھی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ والدین اپنا غصہ بچوں پر اتارتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گھریلو ناچاقیاں، میاں بیوی کے ہر وقت کے جھگڑے اور گھر کے ماحول کو ہر وقت خراب رکھنے سے بچے غیر فطری ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ماحول میں پرورش پانے والے بچو ںکی شخصیت متاثر ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مستقبل میں کامیاب انسان نہیں بن پاتے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں