ہماری فلمی صنعت نے ایک خاص فارمولا بنا رکھا ہے: شمعون عباسی
پاکستانی اداکار و ہدایتکار شمعون عباسی کی فلم ’درُج‘ پر پاکستان بھر میں پابندی عائد کردی گئی ہے لیکن وہ اب بھی پر امید ہیں کہ ان کی فلم کو سینیما گھروں میں نمائش کی اجازت مل جائے گی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے شمعون عباسی نے بتایا کہ انہوں نے خوفزدہ کردینے والے ایک مسئلے پر فلم کیوں بنائی، ان کا کہنا تھا کہ ’درُج‘ ایک غیر روایتی فلم ہے جس کو پنجاب اور سندھ کے سینسر بورڈز نے کلیئر کردیا تھا لیکن اسلام آباد میں کچھ مسئلہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات کہہ دینا کہ ہمارے معاشرے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ہم نے یہ موضوع اس لیے چنا کیونکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ یہ تو ایک ذہنی مسئلہ ہے جو چند لوگوں میں ہوتا ہے جیسے کہ ماس شوٹنگ کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ سوچ کا مسئلہ ہے اسی لیے ہم نے ایک سوچ پر فلم بنائی ہے۔‘
شمعون عباسی کا کہنا ہے کہ ان کی فلم ان دو بھائیوں کے بارے میں ہے جو پنجاب کے ضلع بھکر میں آدم خوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ ان کو دو سال قید میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا لیکن کہا جاتا ہے اس کے بعد بھی انہوں نے کئی قبروں سے مردوں کو نکال کر کھایا۔
شمعون عباسی نے کہا کہ ’اس فلم میں ہم نے کسی آدم خور کو ہیرو دکھانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ بات یہ تھی کہ جو اس طرح کے لوگ ہوتے ہیں ان کے ساتھ ذہنی کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔ کیونکہ دیکھیے دو وقت کی روٹی تو اگر آپ کسی ہوٹل کے سامنے بیٹھ جائیں تو بھی آپ کو مل جاتی ہے تو پیٹ بھرنا اصل مقصد نہیں ہوتا اس طرح کے لوگوں کا۔‘
ان کے مطابق یہ ذہنی مسئلہ ہے جس کو سمجھنے کی کوشش اس فلم میں کی گئی ہے۔
پاکستانی سینیما کے بارے میں انہوں نے کہا کہ’ہم نے اپنی انفرادیت کھو دی ہے۔ ہم نے یہ سوچ لیا ہے کہ عوام بالی وڈ ہی دیکھنا چاہتی ہے جب کہ عوام نے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ صرف بالی وڈ دیکھنا نہیں چاہتے۔ اب عوام کی امید یہ ہے کہ ہم تاریخ کے بارے میں فلم بنیں، ہمیں انفارمیشن بھی دے۔‘
اس سوال پر کہ کیا پاکستان کا سینیما آج کل ایک بار پھر طلوع ہورہا ہے ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ہماری فلمی صنعت نے ایک خاص فارمولا بنا رکھا ہے جو اب بالکل عوام دیکھنا نہیں چاہتے۔
’ریوائیول تب ہوگا جب آپ کے طلبا جنہوں نے فلم پڑھ رکھی ہے وہ سامنے آئیں گے، ان کو موقع دیا جائے گا۔ جو لوگ بیرون ملک سے پڑھ کر آرہے ہیں۔ جب کچھ لوگ 25، 30 سال سے اس انڈسٹری میں کام کر رہے ہیں تو ان سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ بس کسی بالی وڈ کی فلم کی نقل کردیں گے۔ 30 سال کا تجربہ میرے خیال سے کافی ہوتا ہے کچھ نیا اور منفرد کرنے کے لیے لیکن ہم نے تو حد کردی ہے۔ ہر گانا، ہر کپڑے، ہر سیٹ ہم نقل کر رہے ہیں۔‘
نئی بننے والی فلموں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان سے فائدہ تو درکنار بلکہ انڈسٹری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ملک میں ہم صرف ایک مصنوعی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں۔ جس طرح کی فلمیں اب تک بنتی رہی ہیں اس سے سینیما کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ اب ایسا ہو نہیں سکتا کہ آپ ایک ہی طرز کی فلمیں ان لوگوں کو دکھائیں جن کے ہاتھوں میں موبائل ہے،جو پوری دنیا میں بننے والا مواد دیکھ سکتی ہیں۔ یہ تو 1980 کا فارمولا تھا۔‘