Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکی کو شامی کردوں سے مسئلہ کیا ہے؟

ترک فضائیہ نے شام کے اندر کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں کارروائیاں بھی کی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
ترکی نے بدھ کو شام کے شمال مشرقی سرحدی علاقے میں  کرد ملیشیا کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ انقرہ نے سرحدی علاقے میں فضائی کارروائی سے شروع ہونے والے آپریشن کو پیس سپرنگ کا نام دیا ہے۔
ترکی کی کارروائی کا ہدف کرد ملیشیا  )پیپلز پروٹیکشن یونٹ( وائی پی جی ہے۔ انقرہ اپنی سرحد سے ملحق علاقے کو ایسا محفوظ زون بنانا چاہتا ہے جہاں کرد ملیشیا کا وجود نہ ہو۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اس زون میں شامی پناہ گزینوں کو رکھا جائے گا۔
انقرہ وائی پی جی کو دہشت گرد قرار دی گئی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے  کے) کی ایک شاخ سمجھتا ہے۔ پی کے کے گذشتہ تین دہائیوں سے ترکی کے کرد اکثریتی علاقے کی خود مختاری کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
وائی پی جی شام اور عراق میں داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف)کا حصہ ہے اس لیے یہ تنظیم امریکہ اور ترکی کے درمیاں تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتی آئی ہے۔
جب دسمبر 2018 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج  افواج کے انخِلا کا اعلان کیا تو شام کے کردوں نے ان خدشات کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا کہ اب ترکی ان کے خلاف فوجی کارروائی تیز کرے گا۔
ان کردوں نے امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔

شامی کرد زیر حراست رہنما عبداللہ اوجلان کی تصویر والا پرچم لہرا رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

جنوری 2019 میں ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ترکی نے امریکہ کے حمایت یافتہ کردوں پر حملہ کیا تو ترکی پر پابندیاں لگائی جائیں گی۔

آخر ترکی کو شام کے کردوں سے مسئلہ کیا ہے؟

تقریباً 30 لاکھ کرد مشرق وسطیٰ کے ممالک ایران، عراق، شام اور ترکی میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کرد ترکی کی سات کروڑ 90 لاکھ آبادی کا پانچواں حصہ قرار دیے جاتے ہیں۔
اسیر کرد رہنما عبداﷲ اوجلان کی تنظیم پی کے کے نے ترکی کے خلاف 1984 سے مسلح بغاوت شروع کر رکھی ہے۔ پی کے کے ترکی کے کردوں کے لیے زیادہ ثقافتی و سیاسی حقوق اور  علاقے کی خودمحتاری کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
ترکی کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی پی کے کے کی بیناد عبداﷲ اوجلان نے 1978 میں رکھی تھی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد کردوں کے لیے ایک الگ ریاست کا قیام ہے۔
ترکی کے کرد علاقو ں میں جاری شورش سے ابھی تک 40 ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

 

ترک صدر طیب اردوغان نے اپنے دور حکومت میں کردوں کے ساتھ بات چیت شروع کی، اس دوران کرد باغیوں اور حکومت کے درمیاں جنگ بندی بھی ہوئی  تاہم بعد ازاں کرد گروپوں کے ساتھ ترک حکومت کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کو ترکی سیرین ڈیموکریٹک یونین پارٹی کا مسلح ونگ قرار دیتا ہے، اس تنظیم کے تعلقات پی کے کے کے ساتھ ہیں جس نے ترک حکام کے خلاف شمال مشرق میں کئی حملے کیے ہیں۔
جولائی 2015 میں ترک حکومت اور پی کے کے کے درمیان دو سال سے جاری جنگ بندی کا معاہدہ اس وقت ختم ہو گیا تھا جب شام کی سرحد کے ساتھ ترک علاقے میں بم دھماکے میں 30 کرد ہلاک ہو گئے تھے۔

ترک حملے کے خلاف ہزاروں کرد شہریوں نے شام کے سرحدی علاقوں میں مظاہرے کیے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اکتوبر 2015 میں ترکی کی تاریخ کا بدترین دہشت گردی کا واقعہ ہوا جب ایک امن مارچ کو بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا۔
جولائی 2016 میں ترکی میں ہونے والے فوجی بغاوت کے بعد ناصرف بغاوت میں مبینہ طور پر ملوث گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا بلکہ ترک حکومت نے ملک کے جنوب مشرق میں پی کے کے  کے خلاف بھی فضائی کارروائیاں تیز کر دی تھیں۔ ترک حکومت نے شام میں وائی پی جی اور داعش کے خلاف بھی فوجی کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔
ترکی کی سرحد کے باہر کرد جنگجو، امریکہ کے حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے ساتھ مل کے داعش کے خلاف لڑ رہے تھے، اس دوران انہوں نے شمالی شام میں ایک نیم خودمختار خطہ تشکیل دے  دیا تھا۔
ستمبر 2014 میں پی کے کے کے اسیر رہنما عبد اللہ اوجلان نے تمام کردوں پر زور دیا تھا کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لیں۔ اس کے اگلے مہینے داعش نے کردوں کے زیر کنٹرول شام کے کوبانی پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد ہزاروں کرد جان بچا کر ترکی میں داخل ہوئے۔ تاہم کردوں کی زیر کمان ایس ڈی ایف کے دستوں نے جنوری 2015 میں کوبانی کا کنٹرول دوبارہ داعش سے حاصل کر لیا تھا۔

تقریباً 30 لاکھ کرد مشرق وسطیٰ کے ممالک ایران، عراق، شام اور ترکی میں پھیلے ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اگست 2016 میں ایس ڈی ایف نے شام کا اہم شہر منبج بھی داعش سے آزاد کرا لیا۔ تاہم اس دوران وائی پی جی کے جنگجوؤں کی ترک حمایت یافتہ فری سیرین آرمی کے دستوں سے جھڑپیں ہوئیں جو کہ شہر کا کنٹرول سنبھالنا چاہتے تھے۔ تاہم جب ایس ڈی ایف اور وائی پی جی نے شمالی شام کے بہت سارے علاقے داعش سے واپس لے کر وہاں اپنی پوزیشن مضبوط کر لیں تو ترکی کے حمایت یافتہ جنگجو بشمول فری سیرین آرمی کردوں کو ان علاقوں سے نکالنے کے لیے حرکت میں آگئے۔
ترک افواج اور ایف ایس اے نے جنوری 2018 میں آفیرین شہر پر حملے شروع کر دیے اور مارچ 2018 میں شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس کے بعد ترکی مسلسل شام میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں فوجی کارروائیوں کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ ترک فضائیہ نے شام کے اندر کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں کارروائیاں بھی کی ہیں۔
ترکی کو خدشہ ہے کہ اگر کردوں نے شام میں اس شورش کے ماحول میں آزاد کرد ریاست قائم کر لی تو یہ ترکی کے کرد علاقوں میں علیحدگی کی تحریکوں کو جلا بخشے گا۔
واٹس ایپ پر اردو نیوز کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: