امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکہ نے ترک افواج کی شام پر حملہ کرنے کی حمایت نہیں کی۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’انقرہ کے جائز سکیورٹی خدشات ہیں۔‘
مائیک پومپیو نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرد علاقے سے امریکی فوج کے انخلا کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے یہ فیصلہ امریکی فوجیوں کو نقصان سے دور رکھنے کے تناظر میں کیا ہے۔
ادھر خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو ترک افواج نے شام میں زمینی کارروائی بھی کی ہے۔ ترک صدر طیب اردوغان نے بدھ کو شام میں کُردوں کے خلاف آپریشن شروع ہونے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد شام کے سرحدی علاقوں میں بمباری کی گئی تھی۔
دوسری جانب کرد حمایتی سیرین ڈیموکریٹک فورس (ایس ڈی ایف) نے ترک افواج کی زمینی کاروائی کو پسپا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق ایس ڈی ایف کے جمعرات کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ راس العین کے سرحدی علاقے میں ترک افواج کی زمینی کاروائی کی کوششوں کو ناکام بنایا گیا ہے۔ جبکہ ترک وزارت دفاع نے کامیاب فضائی اور زمینی کاروائی کا دعویٰ کیا ہے۔
جمعرات کو شمالی شام میں ترک فوجی آپریشن کے حوالے سے عرب لیگ نے سنیچر کو وزرا خارجہ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق لیگ کے سیکریٹری جنرل کے معاون سفیر حسام زکی نے کہا کہ ’جمہوریہ مصر کی درخواست پر شمالی شام کے علاقے میں ترکی کی جانب سے کی جانے والی جارحیت کے حوالے سے وزرا خارجہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔‘
بدھ کو سعودی عرب نے شام میں کردوں کے خلاف ترکی کے فوجی آپریشن کی مذمت کی تھی۔ وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا کہ ترکی کی طرف سے کیا جانے والا آپریشن شام کی سرزمین کی وحدت اور خود مختاری پر تجاوز ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق وزارت خارجہ نے کہا ہے سعودی عرب، ترکی کی طرف سے کی جانے والی کارروائی پر اپنے پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔ اس سے علاقائی امن وسلامتی کو سنگین نقصانات ہوں گے۔
سعودی عرب نے شامی برادر عوام کی سلامتی اور شام کی سرزمین کی وحدت کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔
سعودی عرب نے کہا ہے کہ جن بہانوں کی بنیاد پر ترکی نے شام کے شمال مشرقی علاقوں میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے اس کے سنگین نتائج پورے علاقے پر پڑیں گے۔ ان علاقوں میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف کی جانے والی عالمی کوششیں سپوتاز بھی ہوں گی۔
دوسری جانب متحدہ عرب امارات نے بھی ترکی کے آپریشن کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے اور عرب ریاست کی خودمختاری کے خلاف کھلم کھلا جارحیت ہے جو ناقابل قبول ہے۔
ترکی نے بدھ کو کرد ملیشیا کے خلاف فوجی کاروائی کا آغاز شام کے شمال مشرقی سرحدی علاقے ’راس العین‘ پر فضائی بمباری سے کیا ہے۔
طیب اردوغان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بدھ کو ٹویٹ میں کرد افواج اور داعش کے خلاف آپریشن شروع ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحد کو دہشت گردوں کی راہداری بننے سے بچانا ہے۔
ترک صدر نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ترک کی افواج نے شام کی نیشنل آرمی کے ساتھ مل کر آپریشن کا آغاز کیا ہے، جس کو ’آپریشن پیس سپرنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
’ہمارا مشن ہے کہ ہماری جنوبی سرحد کو دہشت گردی کی راہداری نہ بننے دیا جائے، اور علاقے میں امن لایا جائے۔‘
ایک اور ٹویٹ میں صدر طیب اردوغان نے کہا کہ ’آپریشن پیس سپرنگ‘ ترکی کے خلاف دہشت گردانہ دھمکیوں کو بے اثر کرے گا، اور ’سیف زون‘ بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس آپریشن سے شام کے مہاجرین واپس اپنے ملک جا سکیں گے۔
’ہم شام کی سرحدوں کا احترام کریں گے اور مقامی آبادیوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرائیں گے۔‘
#OperationPeaceSpring will neutralize terror threats against Turkey and lead to the establishment of a safe zone, facilitating the return of Syrian refugees to their homes.
We will preserve Syria’s territorial integrity and liberate local communities from terrorists.
— Recep Tayyip Erdoğan (@RTErdogan) October 9, 2019
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک ترک سیکیورٹی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کردوں کے خلاف فوجی کاروائی کا آغاز فضائی بمباری سے کیا گیا ہے اور دیگر جنگی اسلحہ بھی استعمال کیا جائے گا۔
سی این این کے مطابق شام کے سرحدی علاقے راس العین کو متعدد دھماکوں نے ہلا کر رکھ دیا۔ سی این این کے ترک نژاد رپورٹر نے روئٹرز کو بتایا کہ فضائی بمباری کے بعد راس العین کی عمارتوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
عالمی طاقتوں کو ڈر ہے کہ ترکی کے اس اقدام سے شام میں جاری جنگ مزید پیچیدہ ہو گی اور خطے کے حالات مزید خراب ہوں گے۔
آپریشن کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کرنے سے چند گھنٹے پہلے ترک صدر نے روسی صدر ولادی میر پوتن سے ٹیلیفونک رابطہ کیا تھا۔ ترک صدر کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق طیب اردوغان نے اپنے ہم نصب کو بتایا تھا کہ کردوں کے خلاف فوجی کاروائی سے شام میں امن اور استحکام آئے گا، اور شام کے مسائل کا سیاسی حل نکالنے میں مدد بھی ملے گی۔
عالمی برادری کا ردعمل
یورپی یونین کے چیف نے ترکی سے کرد ملیشیا کے خلاف فوجی کاروائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ترکی کو متنبہ کیا کہ یورپی یونین ترکی کے ’سیف زون‘ کے پراجکٹ میں مالی مدد نہیں کرے گا۔ ترک صدر نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ شام کے ساتھ جنوبی سرحد کو سیف زون بنایا جائے گا۔
دوسری جانب جرمنی نے ترک حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے داعش کو تقویت ملے گی اور خطہ مزید غیر مستحکم ہو گا۔ جرمن وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ شام میں سیاسی عمل اور استحکام لانے کی ضرورت ہے، لیکن ترک حملے سے نئی انسانی آفت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ جرمن وزیر خاجہ نے ترکی سے فوجی کاروائی بند کرنے اور اپنے مفادات پرامن طریقے سے حاصل کرنے کا کہا۔
نیٹو کے چیف نے بھی ترکی کو تحمل سے کام لینے کو کہا ہے، جبکہ روسی صدر نے ترکی کو احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کی۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی ترکی کے فیصلے پر فکرمندی کا اظہار کیا ہے۔
صدر میکرون کے مشیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ میکرون نے ایک سینیئر کرد افسر، الحام احمد، سے پیر کو صدارتی محل میں ملاقات کی تھی، تاکہ ترکی کو پیغام دیا جا سکے کہ ’فرانس سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے ساتھ کھڑا ہے اور ایس ڈی ایف داعش کے خلاف جنگ میں فرانس کا پارٹنر ہے۔‘
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ترک ہم منصب کو فون کر کہ شام کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرنے کا زور دیا تھا۔
کرد انتظامیہ کا روس سے مدد کا مطالبہ
ترکی کے فوجی کاروائی کے آغاز کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے کرد انتظامیہ نے روس سے اپیل کی تھی کہ وہ شام کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مدد کرے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق کرد انتظامیہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ شام کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں روس کے کردار کا خیر مقدم کرتے ہیں
بدھ کو جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ روس بطور ’حمایتی اور ضامن‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے شام کے ساتھ مذاکرات میں مدد کرے۔
ترکی کے شام میں کرد علاقوں پر قبضے کی دھمکی کے بعد کرد انتظامیہ نے روس سے مدد کی اپیل کی تھی۔
شام کی حکومت نے کہا تھا کہ وہ کرد گروپوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے اگر وہ حکومت میں شامل ہونا چاہیں۔
اس سے پہلے بدھ کی صبح کو شام کی کرد انتظامیہ نے شہریوں سےممکنہ ترک حملے کے خلاف علاقے کا دفاع کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔
شام کے شمال مشرق میں تعینات کرد انتظامیہ کو ترک حکومت کی جانب سے حملے کا خطرہ ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے انتظامیہ نے شہریوں سے مدد کی اپیل کی تھی۔
کرد انتظامیہ کی جانب سے جاری بیان میں شہریوں کو ترکی کے ساتھ ملنے والی سرحد پر جانے کو کہا گیا تھا تاکہ اس تاریخی موقع پر کرد علاقے کا دفاع کیا جا سکے۔ بیان میں تین دن کے لیے شام کی ترکی کے ساتھ لگنے والی شمالی اور مشترقی سرحدوں کی طرف لوگوں کی نقل و حرکت کو عام کیا گیا ہے۔
بیان میں شام میں بسنے والے کردوں سے بھی ترکی کے حملے کے خلاف ساتھ دینے کی اپیل کی گئی تھی۔
امریکی فوج کا انخلا اور ترکی کی حملے کی دھمکی
ترک حکومت نے منگل کو کہا تھا کہ ترکی جلد شام کے شمالی علاقے پر حملہ کرے گا۔ ترکی نے پہلے ہی شام کی سرحد پر مزید بکتر بند گاڑیاں تعینات کر دی ہیں۔
بدھ کو شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے بھی ترک فورسز کے سرحد کے قریب حملے کرنے کی تصدیق کی تھی۔
ایس ڈی ایف نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’ترک فوج سرحد کے ساتھ ہماری پوزیشن پرگولہ باری کر رہی ہے‘۔ یہ علاقہ ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں سے منگل کو امریکی فو جیوں نے انخلا کیا تھا۔
ترک وزارت دفاع نے سرحدی علاقے سے امریکی فوج کے انخلا کے چند گھنٹے بعد ٹویٹ کیا تھا کہ ’آپریشن کے لیے تمام تیاریاں مکمل ہیں۔‘
ا س سے پہلے ترک صدر نے بھی کہا تھا کہ آپریشن کسی بھی لمحے انتباہ کے بغیر شروع ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ہم منصب ترک صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ فون پر رابطے کے بعد شام کے ساتھ ترکی کی سرحد سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا حکم دیا تھا۔
اسی دوران صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں ترکی کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے بھی سخت الفاظ میں یہ بات کہہ چکا ہوں اور اس کا پھر اعادہ کرتا ہوں کہ اگر ترکی کوئی ایسا اقدام کرتا ہے جسے میں نے اپنی عظیم اور بے مثال دانش میں حد سے تجاوز خیال کیا تو پھر میں ترک معیشت کو مکمل طور پر تباہ اور اسے مٹا دوں گا (اور یہ کام میں پہلے بھی کرچکا ہوں)‘۔
....the captured ISIS fighters and families. The U.S. has done far more than anyone could have ever expected, including the capture of 100% of the ISIS Caliphate. It is time now for others in the region, some of great wealth, to protect their own territory. THE USA IS GREAT!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) October 7, 2019